فرانس میں برقعے کے استعمال پر پابندی: قانون سازی کا آغاز
14 جولائی 2010بیلجیئم میں حجاب و نقاب کے پہننے پر تادیبی کارروائی سے متعلق قومی سطح پر قانون سازی کے بعد اب فرانس میں بھی اسی طرح کی قانون سازی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ ایک اور یورپی ملک سپین کی سینیٹ نے بھی ایسے ہی ایک قانون کی منظوری دے دی ہے تاہم اس مجوزہ قانون کی پارلیمانی ایوان زیریں کی طرف سے حتمی منظوری ابھی باقی ہے۔ موجودہ ہسپانوی حکومت اس بل کی مخالفت کر رہی ہے۔
فرانس میں پارلیمانی ایوان زیریں یا قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 557 بنتی ہے۔ ان میں سے ایوان میں موجود 335 ارکان نے مجوزہ قانونی بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں صرف ایک ووٹ ڈالا گیا۔ اس بل کے خلاف رائے دینے والی خاتون رکن اسمبلی جین گلاوانی (Jean Glavany) کا تعلق سوشلسٹ پارٹی سے ہے اور ان کے خیال میں برقعے کا استعمال مسلمان تارکین وطن خواتین کا ایک سماجی رویہ ہے۔
دو سو سے زائد اراکین اسمبلی ووٹنگ کے دوران یا تو غیر حاضر تھے یا انہوں نے اس عمل میں دانستہ طور پر حصہ نہیں لیا۔ اب اس بل کو فرانسیسی ایوان بالا میں ستمبر کے مہینے میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔ اس قانونی بل کی حتمی توثیق فرانس کی دستوری عدالت دے گی۔
دستوری عدالت کی طرف سے توثیق کے بعد یہ مسودہء قانون ایک قانونی دستاویز کی صورت اختیار کر لے گا۔ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اس بل کے حامی ہیں۔ اپوزیشن سوشلسٹ پارٹی جو دبے لہجے میں اس بل کی مخالف کر رہی تھی، اس کے بیشتر اراکین رائے دہی کے وقت پارلیمان میں موجود نہیں تھے۔ فرانس میں تقریباً سبھی سیاسی جماعتیں مسلم خواتین کی طرف سے حجاب و نقاب کے استعمال پر پابندی کے اس مجوزہ بل کی کھل کر یا محتاط انداز میں حمایت کر رہی ہیں۔
اس بل کی جب تمام مراحل میں توثیق ہو جائے گی تو نفاذ کے بعد کسی بھی خاتون کو اس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر 150 یورو تک کا جرمانہ کیا جا سکے گا۔ اگر کوئی مرد اپنے گھر میں کسی خاتون کو مکمل حجاب و نقاب کے لئے مجبور کرے گا تو جرم ثابت ہونے پر عدالتی سطح پر اسے 30 ہزار یورو تک کا جرمانہ اور ایک سال تک قید کی سزا بھی سنائی جا سکے گی۔
فرانسیسی پارلیمان میں یہ بل پیش کئے جانے کے بعد ایوان میں اس پر زبردست بحث ہو ئی تھی۔ خاتون وزیر انصاف میشیل آلیو ماری (Michele Alliot-Marie) کا یہ بل پیش کرتے وقت کہنا تھا کہ جمہوری اقدار اسی معاشرے میں تقویت پاتی ہیں، جہاں لوگ اپنے معاشرے کو پورے چہرے کے ساتھ دیکھنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ برقعے کے خلاف فرانسیسی پارلیمان میں مئی میں بھی ایک قرارداد منظور کی گئی تھی، جس میں خواتین کی طرف سے حجاب پہننے کو مرد اور عورت کے درمیان امتیازی رویے کی علامت قرار دیا گیا تھا۔
فرانس میں مسلمان اس بل کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حجاب و نقاب کی سختی سے پابندی کرنے والے مسلمانوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ فرانس کے پانچ ملین مسلمانوں میں یہ تعداد صرف دو ہزار کے قریب ہے۔
حکومت کی جانب سے قائم کردہ مسلم عقیدے کی کونسل کے سربراہ محمد موسوی (Mohammed Moussaoui) نے بھی اس بل کی دبے لہجے میں حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بل کے قانون بن جانے سے فرانسیسی معاشرے میں ایک خاص طبقہ نشانہ بن سکتا ہے۔ اس بل کے آئندہ نفاذ کے راستے میں حائل ایک دیوار شٹراس برگ میں قائم انسانی حقوق کی یورپی عدالت بھی ہے، جہاں دائر کی جانے والی کسی اپیل کی صورت میں یہ عدالت اس بارے میں اس پابندی کے حق اور مخالفت میں دلائل کی سماعت کر سکتی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک