فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے ساتھ تنازع کا 'بہترین حل‘ہے
22 ستمبر 2021امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ایک خود مختار اور جمہوری فلسطین، اسرائیل کے مستقبل کو یقینی بنانے کا ”بہترین طریقہ" ہے۔ فلسطینی ریاست کے قیام کا ہدف گوکہ ابھی بہت دور ہے لیکن ہمیں اس حوالے سے پیش رفت کے امکانات سے دست بردار نہیں ہونا چاہئے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں مشرق وسطیٰ کے تمام لوگوں کے لیے ایک وسیع تر امن و سلامتی والے مستقبل کی کوشش کرنی چاہئے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے امریکی عزم و ارادے پر کوئی شبہ نہیں ہونی چاہئے اور ایک آزاد یہودی ریاست کے لیے ہماری حمایت سوال سے بالا تر ہے۔ انہوں نے تاہم کہا،''لیکن مجھے یقین ہے کہ دوریاستی حل ایک یہودی جمہوری ریاست کے طور پر اسرائیل کے مستقبل کو یقینی بنانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ جہاں ایک قابل عمل، خود مختار اور جمہوری فلسطینی ریاست کے ساتھ پرامن طریقے سے رہا جائے۔"
امریکی صدر بائیڈن کا کہنا تھا،” 'ہم اس وقت اُس مقصد سے بہت دور ہیں لیکن ہمیں اپنے آپ کو اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت کے امکانات سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہونے دینا چاہیے۔“
بائیڈن کا یہ موقف نیا نہیں ہے
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی ہو۔ اس سے قبل 21 مئی 2021 کو بھی وہ یہ بات کر چکے ہیں۔ البتہ چونکہ امریکی صدر نے ایک بار پھر اور بین الاقوامی فورم پر اپنی بات کا اعادہ کیا ہے جس سے اس معاملے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ امریکہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے کوششوں کو منظم شکل دینے میں مدد کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ تنازعے کا 'واحد حل‘ اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔
صدر بائیڈن نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے اسرائیل سے کہا ہے وہ بیت المقدس کے حساس مقام پر 'برادریوں کے درمیان‘ لڑائی بند کرے۔ تا ہم انہوں نے زور دیا کہ ’ان کے اسرائیل کی سلامتی سے متعلق عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک خطہ اسرائیل کے وجود کو دو ٹوک انداز میں تسلیم نہیں کرتا امن قائم نہیں ہو گا۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیاں جنگی جرم، اقوام متحدہ
صدر جو بائیڈن نے اپنے پیش رو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطین سے متعلق پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے کے حل کے لیے ایک امن منصوبہ پیش کیا تھا۔ انہوں نے اسے 'ڈیل آف دی سنچری‘ قرار دیاتھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا یہ منصوبہ نہ صرف اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دائمی امن کی بنیاد رکھے گا بلکہ اس سے فلسطینیوں کو معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ امن اور ترقی بھی نصیب ہوگی۔
تاہم فلسطین اتھارٹی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کو مسترد کردیا تھا۔ عرب لیگ نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ فلسطین نہیں بلکہ اسرائیل نواز تھا۔
ایران جوہری معاہدہ
بائیڈن نے ایران کے ساتھ سن 2015کے جوہری معاہدے میں واپسی کے اپنے وعدے کو بھی دہرایا تاہم ایک بار پھر واضح کیا کہ ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب ایران اپنے جوہری پروگرام کوترک کر دے۔
یروشلم سے بے دخلی: فلسطینیوں نے اسرائیلی تجویز مسترد کر دی
دوسری طرف ایران کا کہنا ہے کہ پہلے امریکا اس کے خلاف عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا اعلان کرے۔ اس موضوع پر ویانا میں ہونے والی بات چیت اسی لیے تعطل کا شکار ہے کہ پہلا قدم کون اٹھائے گا۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)