فلسطین کی مکمل رکنیت کے لیے اقوام متحدہ میں ووٹنگ آج
18 اپریل 2024خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں سہ پہر تین بجے اس قرارداد کے مسودے پر ووٹنگ ہو گی، جس میں 193رکنی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے سفارش کی گئی ہے کہ ''ریاست فلسطین کو اقو ام متحدہ کی رکنیت دی جائے۔‘‘
سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کو منظور ہونے کے لیے اس کے حق میں کم از کم نو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے پانچ مستقل رکن امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین میں سے کوئی بھی ویٹو نہ کرے۔
فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت، اقوام متحدہ اتفاق رائے میں ناکام
چار عرب ممالک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم
سفارت کاروں کا خیال ہے کہ فلسطین کو مستقل رکنیت دینے کی قرارداد کو کونسل کے تیرہ اراکین کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے منظور ہونے سے روکنے کے لیے امریکہ کو اپنی ویٹو پاور استعمال کرنا پڑے گی۔
قرارداد کا مسودہ پیش کرنے والے کونسل کے رکن ملک الجزائر نے درخواست کی تھی کہ اس پر جمعرات کی سہ پہر مشرق وسطیٰ پر سلامتی کونسل کے اس اجلاس کے موقع پر ووٹنگ کی جائے، جس میں متعدد وزراء شرکت کریں گے۔
امریکہ کہہ چکا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اقوام متحدہ میں نہیں بلکہ فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے۔
فلسطینی ریاست کی تشکیل کے بغیر اسرائیل تسلیم نہیں، سعودی عرب
فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے ساتھ تنازع کا 'بہترین حل‘ہے، بائیڈن
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا، ''موجودہ حالات میں جو کوئی بھی ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کرتا ہے، وہ نہ صرف دہشت گردی کو انعام سے نوازتا ہے بلکہ براہ راست مذاکرات کے متفقہ اصولوں کے برخلاف یک طرفہ اقدامات کی پشت پناہی کرتا ہے۔‘‘
عرب گروپ کی درخواست
خیال رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو سن 2012 سے اقوام متحدہ میں غیر رکن مبصر کا درجہ تو حاصل ہے لیکن مکمل رکنیت اب تک نہیں مل سکی ہے۔ حالانکہ اقو ام متحدہ کے 193 میں سے 137رکن ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں، جس سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اسے مکمل رکنیت مل جائے گی۔
اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی نئی حیثیت پر عالمی ردِ عمل
فلسطینی ایک عرصے سے مکمل رکنیت کے حصول کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا، ''ہم اس لیے مکمل رکنیت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا فطری اور قانونی حق ہے۔‘‘
اقوام متحدہ میں عرب گروپ نے منگل کے روز کہا، ''ہم سلامتی کونسل کے تمام اراکین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قرارداد کے مسودے کے حق میں ووٹ دیں... ہم کم از کم کونسل کے اراکین سے درخواست کرتے ہیں کہ اس اہم اقدام میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔‘‘
فلسطینیوں کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ ہے۔ اسرائیل کا یہ قریبی حلیف سلامتی کونسل کی سفارشات کو روکنے کے لیے ویٹو پاور استعمال کر سکتا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کی حمایت تو کرتا ہے لیکن ایسا اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے بعد ہی ہونا چاہیے۔ امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس طرح کا کوئی اقدام دو طرفہ معاہدے کے بغیر ہوتا ہے تو اقوام متحدہ کی فنڈنگ میں کٹوتی ہو سکتی ہے۔
ج ا/ ا ا، م م (روئٹرز، اے ایف پی)