فوج مخالف سوشل میڈیا صارفین کے خلاف مہم، سول سوسائٹی ناراض
22 مئی 2017پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی طرف سے شروع کی گئی اس مہم کے دوران درجنوں افراد کی نشاندہی کی گئی تھی، جن میں سے کچھ کو حراست میں بھی لے لیا گیا تھا۔ ان میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے کارکنان بھی شامل تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے آج پیر بائیس مئی کے روز اس مہم کے خلاف کراچی اور اسلام آباد میں مظاہرے بھی کیے۔ تاہم نون لیگ اپنے ایک اہم رہنما کی، جو پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم کا حصہ تھے، حراست پر خاموش ہے۔ سوشل میڈیا پر اس ن لیگی رہنما ڈاکٹر فیصل رانجھا کی رہائی کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے آج پیر کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پبلک کسی بھی ادارے پر تنقید کر سکتی ہے لیکن ایک ادارے کے طور پر ملکی فوج کو نقصان نون لیگ نے پہنچایا۔ عمران خان نے کہا، ’’نون لیگ نے ڈان لیکس میں فوج کے خلاف (بھارتی وزیر اعظم) نریندر مودی کی زبان استعمال کی۔ اس سے آرمی کو نقصان ہوا۔ اس طرح سکیورٹی کے نام پر سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے سے جمہوریت تباہ ہوجائے گی۔‘‘
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف سماجی کارکن فرزانہ باری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’حکومت کے اس اقدام سے جمہوریت اور ملک دونوں کو نقصان پہنچے گا۔ ایک طرف تو حکومت لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دے رہی۔ پانی، بجلی اور روزگار سمیت لوگوں کے پاس کوئی سہولیات نہیں ہیں اور دوسری طرف حکومت سے کوئی تنقید بھی برداشت نہیں کی جا رہی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں فرزانہ باری نے کہا، ’’سویلین حکومت نے اپنے سارے اختیارات پہلے ہی فوج کے حوالے کر دیے ہیں اور اب وہ فوج کی طرف سے کردہ قومی مفادات کی تعریف ماننے پر بھی تیار ہے۔ اسی تعریف کی روشنی میں فوج پر بطور ایک ادارہ تنقید کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ٹی وی چینلز کو تو قابو کر لیا ہے۔ لیکن حالیہ ڈان لیکس کے معاملے پر ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا پر آرمی بہت زیادہ ہدف تنقید بنی، تو اب یہ فارمولا اپنایا گیا ہے کہ جو تھوڑا بہت امکان تنقید کا بچا ہے، اسے بھی ختم کر دیا جائے۔‘‘
فرزانہ باری نے کہا کہ اس کریک ڈاؤن کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بلوچستان اور سی پیک پر صرف سوشل میڈیا پر ہی تنقید ہو رہی ہے۔ ’’آرمی کے لیے بلوچستان اور سی پیک بہت حساس موضوعات ہیں۔ اسی لیے فوج ان پر بالکل بھی تنقید نہیں چاہتی۔ دوسرا معاملہ فوج اور حکومت کے مابین اختیارات کی رسہ کشی ہے۔ فوج اب براہ راست اقتدار میں نہیں آ سکتی۔ اس لیے اب وہ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے اپنی طاقت دکھانا چاہتی ہے۔‘‘
اسی بارے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اسد بٹ نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں مارشل لاء لگا ہوا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ہر طرح کی آزادی پر قدغن لگا رہی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ فوج پر تنقید ہو رہی ہے۔ اگر فوج صنعتیں چلا ئے گی۔ اگر وہ بینک چلائے گی۔ اگر وہ ریئل اسٹیٹ چلائے گی۔ اگر وہ سیاسی امور میں مداخلت کرے گی۔ خارجہ اور داخلہ امور اپنے ہاتھ میں لے لے گی، تو اس پر تنقید بھی ہو گی۔ اسے اس تنقید کا سامنا کرنا چاہیے۔ اگر وہ اس تنقید کا سامنا نہیں کرنا چاہتی، تو اسے صرف وہ کام کرنا چاہیے، جس کی اس کو آئین نے اجازت دی ہے۔ جب آرمی چیف، جو آئینی طور پر سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہوتا ہے، ملکی وزیر اعظم کے سامنے ٹانگیں پھیلاکر بیٹھے گا اور وزیر اعظم بھی بچوں کی طرح اس کے سامنے سر ہلائے گا، تو لوگ تنقید تو کریں گے۔ پھر اس تنقید کو بھی برداشت کیا جانا چاہیے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں اسد بٹ نے کہا، ’’اگر لوگوں کو آپ (حکومت) نے تنقید کرنے سے روکا، تو مشکلات آپ کے لیے ہی پیدا ہوں گی۔ تنقید کسی بھی معاشرے کی صحت کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ اس سے رواداری کا کلچر فروغ پاتا ہے۔ اگر آپ اسے روکیں گے تو لوگوں میں غصہ بڑھتا رہے گا۔ پھر اسی وجہ سے کوئی زبردست سماجی دھماکا بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
لیکن پاکستان میں کچھ تجزیہ نگار اس حکومتی کریک ڈاؤن کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ معروف تجزیہ نگار جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’سوشل میڈیا پر بہت سے ایسے اکاؤنٹس ہیں، جو بھارت سے چلائے جا رہے ہیں اور وہ آرمی کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ اس سے فوج کے مورال پر برا اثر پڑتا ہے اور پاکستان کے دشمن ایسے ہتھکنڈوں سے خوش ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن بالکل ہونا چاہیے۔ میری رائے میں یہ کوئی غلط قدم نہیں۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں امجد شعیب نے کہا، ’’فوج پر دو طرح کے لوگ تنقید کر رہے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں، جنہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کے بعد آرمی پر تنقید کرنا شروع کی اور کہا کہ فوج اپنی حدود سے تجاوز کر گئی ہے۔ دوسری طرف فوج نے جب ڈان لیکس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا، تو کچھ لوگوں اور ٹی وی چینلز نے یہ امید لگائی کہ اب فوج کچھ کرے گی۔ لیکن فوج اپنی آئینی حدود میں ہی رہی، جس سے کچھ چینلز، لکھنے والوں اور سیاسی کارکنان کو بھی مایوسی ہوئی اور انہوں نے بھی فوج پر تنقید شروع کر دی۔ لیکن اسی دوران کچھ ایسے عناصر نے بھی پاکستانی فوج پر تنقید شروع کر دی، جن کے اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلائے جاتے تھے۔ اسی لیے ایسے عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن ضروری تھا۔‘‘