’قادری کی انتہاپسندی بھانپ لی گئی تھی‘
7 جنوری 2011سلمان تاثیر کے مشتبہ قاتل مَلک ممتاز حسین قادری کو جمعرات کو راولپنڈی میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس مرتبہ پھر انتہاپسندانہ اسلامی نظریات رکھنے والے سینکڑوں وکلاء اور قادری کی حمایت میں وہاں جمع مدرسوں کے طلبا نے اس پر پھول برسائے۔ انہوں نے عدالتی سیشن کی اسلام آباد منتقلی کا مجوزہ منصوبہ بھی ناکام بنا دیا۔
اسلام آباد حکام نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اس مقدمے کی کارروائی دارالحکومت میں منتقل کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لئے وہاں ایک عارضی عدالت بھی قائم کی گئی، تاہم انتہاپسند مظاہرین نے جج کو راولپنڈی سے اسلام آباد جانے ہی نہیں دیا، جس کے بعد سماعت راولپنڈی کی عدالت میں ہی کی گئی۔
جمعرات کی سماعت میں عدالت نے قادری کے خلاف پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری دی ہے۔ آئندہ سماعت 11جنوری کو ہو گی۔
عدالتی کارروائی کے بعد وکیل صفائی طارق دھمیال نے صحافیوں کو بتایا، ’قادری نے سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے تشدد کی شکایت کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے نہ تو سونے دیا گیا، نہ کھانا دیا گیا جبکہ الیکٹرک شاکس دیے گئے۔‘
دوسری جانب ایلیٹ فورس میں قادری کے نگران ناصر درانی نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ وہ قادری کے انتہاپسندانہ نظریات کو بھانپ چکے تھے، جس کے باعث انہوں نے پنجاب حکومت سے درخواست کی تھی کہ اسے اہم سکیورٹی فرائض کی انجام دہی سے ہٹا دیا جائے۔ درانی نے کہا کہ قادری کو پہلے ہی سکیورٹی خطرہ قرار دے دیا گیا تھا۔ ناصر درانی پنجاب حکومت کی جانب سے سلمان تاثیر کے قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس نے تاثیر کو توہین رسالت کے متنازعہ قانون کے خلاف بولنے پر قتل کیا۔ خیال رہے کہ نومبر میں سلمان تاثیر نے پاکستان میں توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت کا سامنا کرنے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جیل میں ملاقات کی تھی، جس پر انتہاپسند مذہبی تنظیموں نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔
بعض مذہبی رہنماؤں نے تاثیر کے قتل کے بعد پاکستانی شہریوں کو ان کی آخری رسومات میں شرکت کے ساتھ ساتھ کسی طرح کا سوگ منانے پر بھی خبردار کیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: افسر اعوان