قازقستان: مہنگائی کے خلاف مظاہروں کے بعد حکومت مستعفی
5 جنوری 2022ایل پی جی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف نے بدھ کے روز اپنی حکومت کا استعفی منظور کرلیا۔ صدارتی دفتر سے جاری بیان کے مطابق توقایف نے علی خان سمائلوف کو کارگذار وزیر اعظم نامزد کیا ہے۔
قبل ازیں ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے مظاہروں کے بعد بدھ کے روز توقایف نے دو ہفتے کی ملک گیر ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ منگل کے روز احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب حکا م نے رقیق پٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی قیمت مقرر کرنے کی حد ختم کردی، جس کے نتیجے میں ایندھن کی قیمتوں میں زبردست اضافے کی اجازت مل گئی۔
اپنی حکومت کے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے توقایف نے مزید کہا کہ 180دن کی مدت کے لیے قیمتوں کی حد مقررکرنے کے خاطر ایک عارضی قانون دوبارہ لایا جائے گا۔
سرکاری حکم نامے کے مطابق ایمرجنسی کے دوران رات گیارہ بجے سے صبح سات بجے تک کرفیو بھی نافذ رہے گا، نقل و حمل کو محدود کردیا جائے گا اور عوامی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔
ان پابندیوں کا اطلاق ملک کے سب سے بڑے شہر الماتی اور مغربی صوبے مانغیستاو پر بھی ہوگا۔
مظاہرے کیسے شروع ہوئے؟
تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مانغیستاو صوبے کے جانااوزن شہر میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر اترآئے۔ یہ احتجاجی مظاہرے مانغیستاو کے دیگر حصوں اور مغربی قازقستان کے دیگر شہروں تک پھیل گئے۔
پولیس نے بدھ کے روز الماتی کے مین اسکوائر سے مظاہرین کو بھگانے کے لیے آنسو گیس کے شیل داغے اوراسٹن گرینیڈ کا استعمال کیا۔
خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق منگل کی رات کو الماتی کے احتجاجی مظاہرے میں 5000 سے زائد افراد موجود تھے۔
توقایف نے اپنے خطاب میں کہا، "حکومت اور فوجی دفاتر پر حملے کی اپیلیں یکسر غیر قانونی ہیں۔ حکومت ایسے حربوں کے آگے نہیں جھکے گی۔ تاہم ہم تصادم کے بجائے باہمی اعتماد اور بات چیت چاہتے ہیں۔"
قازقستان کے لوگ مظاہرے کیوں کر رہے ہیں؟
مانغیستاو کا علاقہ گاڑیوں میں ایندھن کے لیے تقریباً پوری طرح ایل پی جی پرانحصار کرتا ہے۔ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا خوردنی اشیاء کی قیمتوں پر بھی اثرپڑے گا۔ کورونا وائرس کی وبا شروع ہونے کے بعد سے عام ضروریات کی چیزیں پہلے ہی مہنگی ہو گئی ہیں۔
قازقستان کے بیشتر افراد اپنی کاروں میں ایل پی جی استعمال کرتے ہیں جو کہ پیٹرول کی قیمت کے مقابلے میں سستا ہے۔ ایل پی جی کی قیمتوں کی حد مقرر تھی لیکن حکومت نے یکم جنوری سے اس حد کو اٹھا لیا۔ حکومت کی دلیل ہے کہ کم قیمتیں ناقابل عمل ہیں اور پائیدار نہیں ہیں۔
توقایف نے منگل کے روز ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ حکومت مظاہرین کے مطالبات پر غور کرتے ہوئے ایل پی جی کی قیمتیں کم کرنے پر غور کرے گی لیکن اس کے اس اعلان کا مظاہرین پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
ج ا/ ص ز(اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)