قطر اپنی پالیسیاں بدلے، سعودی عرب
18 مارچ 2014سعودی وزیر خارجہ کا یہ مختصر بیان منگل اٹھارہ مارچ کو عرب اخبار الحیات میں شائع ہوا ہے۔ قطر سے سعودی سفیر کو واپس بلانے کے بعد سے ریاض حکومت کی جانب سے اپنی نوعیت کے اس پہلے سرکاری بیان میں سعود الفیصل نے کہا ہے کہ ’کشیدگی تبھی کم ہو گی، جب قطر اپنی اُن پالیسیوں میں ترمیم کرے گا، جو بحران کا اصل سبب ہیں‘۔ اخبار کی جانب سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں سعودی وزیر نے کہا کہ ’اس بحران کے خاتمے کے سلسلے میں کوئی امریکی ثالثی نہیں ہو گی‘۔ واضح رہے کہ مارچ کے اواخر میں امریکی صدر باراک اوباما سعودی دارالحکومت ریاض کا دورہ کرنے والے ہیں۔
رواں مہینے کے اوائل میں سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے خلیجی تعاون کونسل (GCC) میں اپنے ساتھی ملک قطر سے اپنے اپنے سفیر یہ الزام لگاتے ہوئے واپس بلا لیے تھے کہ قطر اُن کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے اور اخوان المسلمون کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ خلیجی تعاون کونسل میں ان چار ممالک کے ساتھ ساتھ کویت اور عمان بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ زیادہ تر خلیجی ممالک میں اخوان المسلمون اور اُس سے قریبی نظریاتی وابستگی رکھنے والی تنظیموں پر پابندی عائد ہے جبکہ قطر کو ان تنظیموں کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ خلیجی عرب ممالک کی شاہی سلطنتیں بھی ایک طویل عرصے سے اخوان المسلمون کی جانب معاندانہ طرزِ عمل روا رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اُنہیں ڈر ہے کہ اس تنظیم کی عوام میں نچلی سطح پر عمل میں لائی جانے والی سرگرمیاں اور ’سیاسی اسلام‘ اُن کی موروثی بادشاہتوں کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ خلیجی تعاون کونسل کے پانچ مارچ کو منعقدہ اجلاس میں سعودی عرب نے مطالبہ کیا تھا کہ دوحہ حکومت ٹیلی وژن چینل الجزیرہ کو، جو کہ قطر کی ملکیت ہے، بند کر دے۔ اسی اجلاس میں ریاض حکومت نے قطر میں قائم دو تھنک ٹینکس بروکنگز دوحہ سینٹر اور عرب سینٹر فار ریسرچ اینڈ پالیسی اسٹڈیز کی بھی بندش کا مطالبہ کیا تھا۔
ناقدین کا الزام ہے کہ الجزیرہ نیٹ ورک اخوان المسلمون کے حق میں جانبداری کا مظاہرہ کرتا ہے اور یہ کہ اس کے بہت سے صحافیوں پر اخوان المسلمون کی حمایت کی پاداش میں مصر میں مقدمات چل رہے ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین خاص طور پر اس بناء پر قطر سے ناراض ہیں کہ اُس نے اخوان المسلمون کے مشہور مبلغ اور خطیب یوسف الکرادوی کو پناہ دے رکھی ہے۔ الکرادوی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ایک بڑے ناقد ہیں اور اُنہیں عرب ٹی وی چینل الجزیرہ کے ساتھ ساتھ قطر کے سرکاری ٹیلی وژن پر بھی باقاعدگی سے اپنے خیالات کے اظہار کے مواقع دیے جاتے ہیں۔
قطر نے گزشتہ ہفتے اپنے تینوں ساتھی خلیجی ممالک کی جانب سے قطری خارجہ پالیسی میں ترامیم کے مطالبات یہ کہہ کر رَد کر دیے تھے کہ قطر کی آزادی ایک ایسا معاملہ ہے، جس پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔