قطر میں افغان کانفرنس، طالبان کے بغیر کامیابی کے امکانات کم
19 فروری 2024اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کی صدارت میں افغانستان کے لیے مختلف ملکوں کے خصوصی نمائندوں کا دو روزہ اجلاس قطر میں اتوار کے روز شروع ہوا۔ اجلاس کا مقصد اس بات پر تبادلہ خیال کرنا ہے کہ افغانستان میں بین الاقوامی رسائی بڑھانے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔
طالبان نے بعض شرائط پور ی نہ کیے جانے کی بنا پر اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ طالبان چاہتے تھے کہ انہیں افغانستان کے واحد سرکاری نمائندے کے طورپر تسلیم کیا جائے اور تمام مسائل پر اقوام متحدہ اعلیٰ سطح پر ان کے ساتھ بات کرے۔
طالبان کا ایک اور مطالبہ تھا کہ اس کانفرنس میں اس عسکریت پسند گروپ پر کوئی بھی تنقید نہ کرے اور نہ ہی اس بات پر نکتہ چینی کی جائے گی کہ اگست 2021ء میں اقتدار میں آنے کے بعد وہ ملک کو کیسے چلا رہے ہیں۔ تاہم میزبان کی جانب سے انہیں اس بات کی بھی ضمانت نہیں دی گئی۔
اس صورتحال میں کانفرنس کی کامیابی کے امکانات شروع سے ہی محدود نظر آ رہے ہیں۔
اجلاس میں خواتین اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شرکت کر رہے ہیں۔ جب کہ انسانی حقوق کے گروپوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ تمام بات چیت میں خواتین کے حقوق کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔
انسانی حقوق کی ایک تنظیم نارویجیئن رفیوجی کونسل کے سکریٹری جنرل جان ایگلینڈ نے ایکس پر اتوار کے روز لکھا، ''مایوس کن بات ہے کہ طالبان نے دوحہ میں افغانستان کے لیے خصوصی ایلچیوں کی میٹنگ میں شرکت کرنے سے انکار کردیا۔‘‘
کیا انسانی حقوق کی تنظیموں کو کانفرنس میں مدعو کرنے سے کوئی فرق پڑے گا؟
یہ اجلاس افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال کے حوالے سے فکر مند خواتین اور شہری گروپوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔ اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار فریدون ہادی سینیرلیو اولو نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی، جس میں افغانستان کو بین الاقوامی اقتصادی اور سیاسی نظام میں دوبارہ مربوط کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
فریدون کا کہنا تھا کہ طالبان اگر اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں تو انہیں بین الاقوامی اقتصادی اور سیاسی نظام میں دوبارہ شامل کیا جانا چاہیے لیکن یہ مذہبی عسکریت پسند گروپ ایک ''جامع حکومت‘‘ تشکیل کرنے کی بارہا اپیلوں کویکسر مسترد کر چکا ہے۔
طالبان نے دیگر کارروائیوں کے علاوہ خواتین کے خلاف جبر وزیادتی کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ ان میں انہیں اسکول جانے اور کام کرنے کی اجازت نہ دینا بھی شامل ہے۔
طالبان کی سخت اسلام پسند حکمرانی کے نتیجے میں مغربی ملکوں نے اس گروپ کو افغانستان کا جائز حکمراں تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور ریاستوں، عطیہ دہندگان اور امدادی تنظیموں کو ملک سے نکل جانے پر مجبور کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے افغانستان کی پہلے سے ہی مخدوش اقتصادی صورت حال کو مزید نقصان پہنچا ہے۔
دوحہ اجلاس میں متعدد ملکوں کی موجودگی کے باوجود اس میں طالبان کے شرکت سے انکار اور اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے طورپر رچرڈ بینیٹ کی تقرری کی تجویز کو مسترد کردیے جانے کے نتیجے میں اس اہم کانفرنس کے بامعنی اور جامع ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ طالبان کا کہنا تھا کہ چونکہ کابل میں پہلے سے ہی اقوام متحدہ کا ڈپلومیٹک مشن موجود ہے، ایسے میں کسی خصوصی سفیر کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔
ج ا/ ع ا (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)