افغانستان میں جرمنی کی ناکامی
9 جنوری 2024سن 2021ء میں طالبان افغاناستان میں دوبارہ اقتدار میں کیسے آئے؟ کیا اسے تباہ کُن کوتاہیوں اور غلط فہمیوں یا ایک بہت بڑی حقیقت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ سمجھا جائے؟ اس حوالے سے جرمنی کے ایک مشہور ہفت روزہ جریدے ''ڈی سائیٹ‘‘ نے ایک تحقیق کی۔ اس تحقیق میں اس موضوع پر خاص طور سے توجہ دی گئی کہ افغانستان میں وفاقی جرمن فوج کے لیے خدمات انجام دینے والے عملے میں شامل ہزاروں مقامی افراد کے مستقبل کے حوالے جرمن حکومت نے منصوبہ بندی کیوں نہیں کی ۔ اس تحقیق کے لیے متعدد صحافیوں کو ہزاروں صفحات پر مشتمل فائلز، نوٹس، روزانہ صبح جرمن حکومت کو افغانستان سے موصول ہونے والی رپورٹیں، وفاقی وزراء کی ای میلز اور ریاستی سیکرٹریوں کے ساتھ ساتھ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کے منٹس کے دستاویز تک رسائی دی گئی تھی۔
سن 2021ء میں جرمنی میں ایک مخلوط وفاقی حکومت تھی جس میں کرسچین ڈیموکریٹک یونین )سی ڈی یو(، کرسچین سوشل یونین )سی ایس یو( اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی )ایس پی ڈی( شامل تھیں۔ اُس وقت انگیلا میرکل جرمنی کی چانسلر تھیں تاہم ستمبر میں وفاقی انتخابات ہونے والے تھے اور افغانستان کی جنگ اور وہاں آنے والی تبدیلیوں جیسے موضوعات پر جرمنوں کی توجہ اسی وجہ سے بہت کم تھی۔
امریکہ میں متعین سابق جرمن سفیر
ہفت روزہ جریدے ''ڈی سائیٹ‘‘ نے اپنی مذکورہ تحقیقاتی رپورٹ میں جن اہم باتوں کا ذکر کیا ہے ان میں اُس وقت امریکہ میں متعین جرمن خاتون سفیر ایملی ہابر کی طرف سے برلن حکومت کو دی گئی ایک اطلاع شامل ہے جو انہوں نے 6 اگست کو دی تھی۔ اس میں انہوں نے بتایا تھا کہ امریکہ جلد ہی افغانستان سے نکل جائے گا اور امریکی کابل میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کا خاتمہ دیکھ رہے ہیں۔ اس پر شروع میں تو برلن کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن اس بات کو ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ 13 اگست 2021 ء کو حکومت نے ایک ہنگامی اجلاس بلایا، جس کے دو روز بعد 15 اگست کو طالبان نے سقوط کابل کا اعلان کر دیا۔ اس واقعے کے ایک روز بعد یعنی 16 اگست کو برلن حکومت نے ایک 'بحرانی ٹیم ‘ تشکیل کی۔
سقوط کابل سے چند روز قبل اُس وقت کے جرمن وزیر اقتصادیات اور سوشل ڈیموکریٹ لیڈر اولاف شُولس نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا،''جرمنی ایک ایسا ملک ہے، جس نے بہت سے پناہ گزینوں کو پناہ دی اور انہیں قبول کیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سنگین جرائم کے مرتکب افراد جرمنی میں رہ سکیں۔‘‘ شولس نے تاہم افغانستان کی اندرونی کی صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔
ہفت روزہ جریدے کی رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ جرمن حکومت کو بظاہر اُس وقت افغانستان کی حقیقی صورتحال سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ جرمن حکومت نے اپنی فیڈرل اینٹیلیجنس سروس سے پوچھا تھا کہ طالبان کب افغانستان میں اسلامی امارات قائم کر سکتے ہیں۔ تین اگست کو جرمنی کی بیرون ملک فعال انٹیلی جنس سروس نے کہا تھا، ''ہمارے اندازے کے مطابق جلد سے جلد یہ دو سال میں ممکن ہو سکتا ہے۔‘‘ ہوا یہ کہ دو ہفتے کے بعد ہی انتہا پسند طالبان نے کابل پر قبضہ کر کے ہندو کش کی اس ریاست کی باگ ڈور سنبھال لی۔
مقامی کارکنوں کے بچاؤ کا عمل
جرمن حکومت پر ایک تنقید یہ بھی کی جا رہی ہے کہ اُس نے طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد وہاں جرمن فوج کے لیے خدمات انجام دینے والے ہزاروں کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کے بچاؤ کے لیے اقدامات میں ہچکچاہٹ سے کام لیا۔ دیگر ممالک جیسے کہ امریکہ، برطانیہ، نیدرلینڈز اور ڈنمارک نے اپنے شہریوں اور افغانستان میں مقامی عملے کو پندرہ اگست کو ہی وہاں سے نکالنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن برلن نے اس میں بھی ایک دن کی تاخیر کی اور جرمن ریسکیو آپریشن 16 اگست کو شروع ہوا۔ اس کے بعد وفاقی جرمن فوجیوں نے کابل کے ہوائی اڈے پر طالبان کے ساتھ دس دنوں تک شدید لڑائی لڑی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جرمنی جانے کا موقع ملے۔
آج ڈھائی سال بعد وفاقی جرمن پارلیمان میں کرسچین ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو کے خارجہ اور سلامتی امور کے ماہر روڈیرش کیزے ویٹر افغانستان سے متعلق جرمن پالیسی کو ایک کمزور اور کسی عزم کے بغیر پالیسی قرار دے رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا،'' ڈی سائیٹ میں چھپنے والی رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ جرمنی کی سلامتی سے متعلق پالیسی کس قدر کمزور اور اسٹریٹیجی کے فقدان کا شکار ہے۔ یہ پالیسی دراصل تنازعات کے ضمن میں ذمہ داری لینے سے بچنے کے لیے بنائی گئی ہے اور اہم اوقات میں بروقت اقدامات کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے، بلکہ اس کی کوتاہیاں اورکمزوریاں خود انسانی المیوں اور تباہیوں کا سبب بنی ہیں۔‘‘
جرمن جریدے کی اس تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرمن حکومت آج افغانستانکے عوام کے لیے کچھ کرنے سے قاصر ہے اور ان کی مدد کے لیے اس کی صلاحیتیں بہت محدود ہیں۔ خارجہ اور سلامتی امور کے ماہر روڈیرش کیزے کے بقول،''اب بھی ہم پر ان مقامی کارکنوں اور ان کے خاندانوں کے لیے سیاسی ذمہ داری عائد ہے جو افغانستان چھوڑنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ افغان شہری آبادی کی طرف ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی بنتی ہے اور افغانستان کے عوام کے ضمن میں جرمنی پر اخلاقی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے، جو سماجی اور اقتصادی تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔17 ملین سے زیادہ افغان شہری شدید بھوک کے خطرے سے دوچار ہیں اور 60 لاکھ سے زیادہ فوڈ ایمرجنسی سے متاثر ہیں۔‘‘
(ژینس تھوراؤ) ک م/ م ا