قندھار آپریشن میں قبائلیوں کی مرضی ضروری: کرزئی
5 اپریل 2010مغربی ممالک پر افغان صدر کی جانب سے کی جانی والی تنقید کے ایک روز بعد حامد کرزئی نے شورش زدہ شہر قندھار میں نیٹو کے مجوزہ آپریشن پر سوال اٹھایا ہے۔کرزئی کے ساتھ قبائلی اکابرین کی اس ملاقات کے موقع پرنیٹو کے امریکی کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل بھی موجود تھے۔ اطلاعات کے مطابق نیٹو کی فوج انتہا پسند طالبان کے خلاف قندھار کے علاقے میں آٹھ سال قبل شروع ہونے والی افغانستان جنگ سے لے کر اب تک کے سب سے بڑے ملٹری آپریشن کی تیاریاں کر رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے کے روز صدرکرزئی نے کابل میں افغان پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے کابل حکومت کو قانون وضوابط کے سلسلے میں زیر دباؤ لایا گیا تو طالبان کی مدافعتی مہم حق بجانب ثابت ہوگی۔ افغان صدر کے ان بیانات کا حوالہ ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے اپنی اشاعت میں دیا ہے۔ گزشتہ چند روز سے افغان صدر کے امریکہ اور نیٹو فورسزکے بارے میں کئی ایک بیانات اطراف کے مابین کشیدگی کا تاثر دے رہے ہیں۔ حال ہی میں واشنگٹن حکومت نے افغان صدر حامد کرزئی کے اُن بیانات کو رد کر دیا تھا، جن میں انہوں نے گزشتہ برس افغانستان کے متنازعہ صدارتی انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کا ذمہ دارغیرملکیوں کو ٹھرایا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان رابرٹ گبز کے مطابق اس ضمن میں واشنگٹن انتظامیہ نے صدر کرزئی سے ان کے اس بیان کی وضاحت بھی طلب کر لی تھی۔ وائٹ ہاؤس اور امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے کرزئی کے ان بیانات کو اشتعال انگیز اورجھنجھلاہٹ کا باعث قراردیا گیا تھا۔ حامد کرزئی کی جانب سے اس قسم کے بیانات کا سلسلہ گزشتہ جمعرات کو کابل میں الیکشن کمیشن کے ساتھ بات چیت سے شروع ہوا، جس انہوں نے یورپی یونین کے انتخابی مبصرمشن کے سربراہ فلپ مرولن اور اقوامِ متحدہ کے مشن برائے افغانستان کے سابق ڈپٹی چیف پیٹرگالبرائتھ کا نام لیا تھا۔
واضح رہے کہ گالبرائتھ کو افغان صدارتی انتخابات کے بعد افغان حکومت پر کڑی تنقید کے بعد اور اس حوالے سے اپنے مشن کے سربراہ کائی ایڈی کے ساتھ اختلافات کی بنا پر ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا گیا تھا۔
دریں اثناء حامد کرزئی نے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن سے ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی، جس میں امریکی ذرائع کے مطابق کرزئی نے اپنے بیانات پر معذرت کا اظہار نہیں کیا تھا بلکہ ان بیانات پر واشنگٹن کی طرف سے ہیجانی ردعمل سامنے آنے پرکرزئی نے حیرت ظاہر کی تھی۔ افغانستان اور امریکہ کے مابین یہ کشیدگی صدر اوباما کے کابل کے اچانک دورے کے چند روز بعد ہی سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اوباما نے کرزئی پر زور دیا تھا کہ وہ ملک سے بدعنوانی کو دور کرنے اور ’گُڈ گورننس‘ کے فروغ کے لئے ممکنہ موثر اقدامات کریں۔
صدر اوباما کے ترجمان رابرٹ گبز بھی حامد کرزئی کے بیان کو واشنگٹن کے لئے حقیقی معنوں میں تشویش کا باعث قرار دے چکے ہیں۔ گبز کے بقول ’’افغانستان کے لئے امریکہ کی طرف سے سیاسی اور ملٹری ذرائع جتنے بڑے پیمانے پر فراہم کئے گئے ہیں اور واشنگٹن نے افغانستان کے لئے جن عظیم قربانیوں کو اپنا فرض سمجھا ہے، انہیں نظر میں رکھتے ہوئے امریکہ افغان صدر کے حالیہ بیانات کے چند پہلوؤں کے بارے میں خاصہ فکر مند ہے۔‘‘
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان فلپ کرولی نے بھی کرزئی کے بیانات کو بے سروپا قرار دیا تھا۔ افغان صدر کے بیانات کے فوری رد عمل کے طور پر کابل میں متعین امریکی سفیر کارل آئی کن بیری صدر کرزئی سے ملے اور اُن سے انہوں نے امریکی حلقوں کے بقول’ اشتعال انگیز‘ بیانات کی وضاحت طلب کی جو دراصل واشنگٹن کا مطالبہ تھا۔ اس کے فوراً بعد کرزئی نے ہلیری کلنٹن سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ امریکی ذرائع کے مطابق کرزئی نے افغانستان کے لئے امریکہ کی قریانیوں اور امداد کا ازسرنو شکریہ ادا کیا اور دونوں ملکوں کے مابین دوستانہ تعلقات کو کسی قسم کی آنچ نہ آنے دینے کا یقین دلایا تاہم کرزئی نے اپنے بیانات پر معذرت طلب نہیں کی بلکہ اُس پر سخت امریکی رد عمل پر تعجب کا اظہارکیا۔
کرزئی یہاں تک کہ چکے ہیں کہ ’ افغانستان کے الیکشن میں غیر ملکیوں کے کردار سے افغانستان میں موجود ایک لاکھ 26 ہزارغیر ملکی فوجیوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ جو حملہ آوروں کی حیثیت سے پہنچانے جا رہے ہیں‘۔ یہ اصطلاح طالبان استعمال کرتے رہے ہیں۔ افغان تجزیہ نگاروں نے ان بیانات کو خاصا خطرناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہی طالبان کی 9 سالہ بغاوت کی وجہ بنی ہے اور اسے اصطلاح کو اب ایک قومی مذاحمت کا رنگ دے کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حامد کرزئی کے اس بیان کو بہت سے تجزیہ نگار غیر معمولی قرار دے رہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا ’اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے کابل حکومت کو قانون وضوابط کے سلسلے میں زیر دباؤ لایا گیا تو طالبان کی مدافعتی مہم حق بجانب ثابت ہوگی‘۔
رپورٹ : کشورمصطفیٰ
ادارت : عاطف توقیر