لانگ مارچ ہو کر رہے گا، طاہر القادری
12 جنوری 2013پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ہونے والے حالیہ اضافے کے بعد لانگ مارچ کے دوران دہشت گردی کے خطرات، متحدہ قومی موومنٹ کے اس لانگ مارچ سے عملی طور پر الگ ہو جانے، اسلام آباد میں موسم کے شدید سرد ہونے اور مبینہ طور پر پس پردہ ہونے والی بات چیت کی وجہ سے اس لانگ مارچ کے منسوخ کیے جانے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے۔
ایک طرف تحریک منہاج القرآن نے لانگ مارچ کے لیے بھرپور تیاریاں کر رکھی ہیں اور ٹی وی چینلز پر اشتہارات چل رہے ہیں، تو دوسری طرف حکومت کی طرف سے اس لانگ مارچ کو روکنے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی عمارت کو جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ پولیس اور رینجرز کی اضافی نفری بھی طلب کر لی گئی ہے۔
جمعے کے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ طاہر القادری کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عدالتیں اس لانگ مارچ کے انعقاد کو آئینی قرار دے چکی ہیں، اس لیے اس کو روکنا غیر آئینی ہوگا۔ انہوں نے حکومت پر الزام عائد کيا کہ وہ اس لانگ مارچ کو روکنے کے لیے غیر قانونی حربے استعمال کر رہی ہے۔
ادھر پاکستان کے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس اس لانگ مارچ پر دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے ٹھوس اطلاعات موجود ہیں۔ تاہم علامہ طاہرالقادری کا کہنا ہے کہ اگر لانگ مارچ پر حملہ ہوا تو اس کے ذمہ دار صدر زرداری، وزیراعظم پرویز اشرف، وزیر داخلہ رحمان ملک، نواز شریف، وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اور وزیر داخلہ پنجاب رانا ثنا اللہ ہوں گے۔ ان کے بقول انہوں نےاپنی وصیت بیان کرنے کے لیے آج رات اپنے اہل خانہ کو اکٹھا کر لیا ہے اور وہ بتائیں گے کہ ان کو قتل کر دیے جانے کی صورت میں ان کو کیا کرنا چاہیے۔
پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار مجیب ا لرحمن شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ انتخابی اصلاحات کے نام پر کی جانے والی اس لانگ مارچ کے حقیقی مقاصد کے بارے میں شک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول الیکشن ریفارمز کے مطالبات بغیر لانگ مارچ کے بھی منوائے جا سکتے تھے۔ ان کے بقول ايم کیو ايم کی لانگ مارچ سے علیحدگی سے نفسیاتی اثر تو ہو گا لیکن لانگ مارچ پر اس کے عملی اثرات نہیں پڑیں گے کیونکہ طاہر القادری اس وقت پنجاب میں موجود اپنے حامیوں پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔ان کے بقول علامہ طاہرالقادری کے لیے اب لانگ مارچ سے پیچھے ہٹنا آسان نہیں رہا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس لانگ مارچ کے ممکنہ نتائج کا حتمی اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے، ’’ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ کیسے شروع ہوتا ہے، کیسے ختم ہوتا ہے اور اس میں کوئی ناخوشگوار واقعہ تو نہیں ہوتا۔ اور اگر ایسا ہوا تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رد عمل کا جائزہ لینا ہوگا۔‘‘
ادھر وفاقی ایوان صنعت و تجارت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ لانگ مارچ کے نتیجے میں کاروباری برادری کو اربوں روپے کے نقصان کا اندیشہ ہے۔
علامہ طاہر القادری انتخابی اصلاحات کے لیے اپنا ایجنڈا کل ہفتے کے روز جاری کریں گے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عاصم سليم