1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور بم دھماکے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

21 جنوری 2022

پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں تیزی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہوئے دھماکے سے کیا اشارے مل رہے ہیں؟

https://p.dw.com/p/45sIY
Pakistan I Tödliche Explosion in einem Wohngebiet in Lahore
تصویر: Mohsin Raza/REUTERS

پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور تک پہنچ گئی ہے۔ اسلام آباد میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ایک پولیس کانسٹیبل کی ہلاکت کے چند ہی روز بعد لاہور میں ہونے والا بم دھماکا جہاں شہریوں میں خوف اور مایوسی پیدا کرنے کا باعث بنا ہے وہاں اس دھماکے نے دہشت گردی سے نمٹنے کی عمران حکومت کی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 56 فیصد اضافہ

افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی بڑھ گئی

تازہ ترین صورتحال

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لاہور کے سیف سٹی کے کیمروں کی مدد سے لاہور بم دھماکے کے ملزموں کی نشاندہی ہو گئی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ پولیس نے  تین مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔ پولیس، انسداد دہشت گردی کے محکمے اور خفیہ ایجنسیوں کے لوگ شواہد کا جائزہ لے کر تحقیقات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

لاہور کے انارکلی بازار کے متاثرہ حصے میں آج کاروبار اور دوکانیں بند ہیں۔ تاہم لوگ جائے واردات کو دیکھنے کے لیے آ رہے ہیں، جائے واردات کو اب بھی شامیانوں کی مدد سے بند کیا ہوا ہے۔ لاہور بم دھماکے کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کے مقامی تھانے میں درج کر لیا گیا ہے۔

لاہور بم دھماکا کس نے کیا؟

پاکستانی میڈیا پر سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ آرمی نے قبول کر لی ہے۔ تاہم اس خبر کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی یے اور نہ یہ واضح ہے کہ اس خبر کا منبع کیا ہے۔ ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم کہتے ہیں کہ بلوچستان میں برسر پیکار عناصر کی اتنی کپیسٹی ہی نہیں ہے کہ وہ لاہور آ کر ایسی کارروائی کر سکیں۔ ان کے نزدیک یہ واقعہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پاکستان میں موجود سلیپنگ سیلز کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ ٹی ٹی پی حال ہی میں مارے جانے والے اپنے مرکزی رہنماؤں کی وجہ سے انتقامی جذبات اور غصے کی شکار ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار برگیڈئیر (ر)فاروق حمید خان کا بھی  کہنا ہے کہ اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ اس واقعے میں بلوچ عناصر ملوث ہو سکتے ہیں۔ ان کی دانست میں بھی یہ کارروائی ٹی ٹی پی کی ہو سکتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ہمسایہ ملک کی خفیہ ایجنسی کے ذریعے بلوچستان اور ٹی ٹٰی پی کے عناصر میں اتحاد ہو گیا تو یہ صورتحال بہت خطرناک ہوگی۔

یہ بم دھماکے کیسے روکے جا سکتے ہیں؟

برگیڈئیر(ر)فارووق حمید کہتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں کامیابی حاصل کرکے دہشت گردی کو کچلنے کی صلاحیت اور تربیت حاصل کر لی ہے ۔ اب افغان بارڈر پر باڑ بھی لگ چکی ہے، انٹیلیجنس نیٹ ورک بھی موثر ہے۔ اس لیے دہشت گردی کے اکا دکا واقعات تو ہو سکتے ہیں لیکن دہشت گردوں کے لیے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر پاکستان دہشت گردی کے مقابلے کے لیے بہتر تیاری رکھتا ہے تو پھر ٹی ٹی پی کے ساتھ صلح اور بات چیت کی پالیسی کیوں اختیار کی جا رہی ہے۔ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستانی ہیں، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا ساتھ دینے پر پاکستان سے ناراض ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ لوگ پاکستان کی شرائط پر ملکی آئین اور قانون کے سامنے سرنڈر کرکے ڈی ریڈیکلائز ہونے کو تیار ہیں تو ریاست ان کی مدد کرے گی اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

تجزیہ نگار امتیاز عالم کہتے ہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج کے اہلکار اور سویلین لوگ شہید ہو رہے ہیں۔ افغانستان کی حکومت پاکستان کی کوئی مدد نہیں کر رہی۔ پاکستان کو صلح کی پالیسی ترک کرکے سخت ایکشن لینا ہوگا۔افغانستان کی بیس سالہ افغان جنگ کے منفی اثرات پاکستان پر پڑتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے بقول آنے والے دنوں میں پاکستان پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا۔ دہشت گردی کے مزید واقعات ہو سکتے ہیں۔ مزید افغان مہاجرین یہاں آ سکتے ہیں اوردہشت گردی کی وارداتیں بڑھا کر پاکستان پر افغانستان کو تسلیم کرنے لے لیے مزید دباوڈالا جائے گا۔ ''بدقسمتی سے پاکستان اپنی ہی پالیسیوں کے نتائج بھگت رہا ہے۔ ‘‘

دہشت گردی ختم، اب کہانی کچھ اور ہے

کیا قومی سیکورٹی پالیسی دہشت گردی کی روک تھام میں معاون ہو سکتی ہے؟

امتیاز عالم کہتے ہیں کہ حال ہی میں بنائی جانے والی نیشنل سیکورٹی پالیسی زیادہ تر اس بات پر فوکس رکھتی ہے کہ ملک میں اکنامک سیکورٹی کو یقینی بنایا جائے تاکہ ملکی سیکورٹی پر معیشت کے عدم استحکام کے اثرات نہ پڑ سکیں اس میں صورتحال کی بہتری کے لیے فارن پالیسی کو درست کرنا ہوگا، افغانستان کا وکیل بننے کی بجائے پاکستان کے مفاد کو دیکھنا ہوگا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا حکومت کی تبدیلی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہتر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ نئی حکومت کو کتنے اختیارات ملتے ہیں۔''ابھی تک تو نئے سیٹ اپ کے لیے دونوں فریق اپنی اپنی شرائط پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ‘‘

کیا پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف قومی مفاہمت ممکن ہے؟

بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر مشترکہ قومی لائحہ عمل بنانا چاہیے۔لیکن کیا حکومت اپوزیشن محاذ آرائی کی فضا میں ایسا ممکن ہے۔ اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے۔ برگیڈئیر (ر)فارووق حمید کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی روک تھان کے لیے اے پی ایس سانحے کے بعد ہونے والے سول ملٹری اتفاق رائے کی طرح کے اتفاق رائے کی اب ضرورت ہے اور ایسا ہونا چاہیے۔