لاہور میں ارطغرل غازی کے مجسمے نصب
24 جون 2020ترک ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی کو سن دو ہزار انیس تک ترکی میں ہی نشر کیا گیا تھا۔ اس ڈرامے میں تیرہویں صدی کے ترک خانہ بدوش لیڈر کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس نے منگولوں، صلیبیوں اور بازنطینیوں کا مقابلہ کیا تھا اور بعد ازاں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
لاہور کی ایک نجی رہائشی کالونی کی انتظامیہ نے ارطغرل غازی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس کے دو مجسمے نصب کیے ہیں۔ مرغزار کالونی نامی ہاؤسنگ سوسائٹی کے سربراہ محمد شہزاد چیمہ کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ خود بھی ارطغرل کو بہت پسند کرتے ہیں، ان کی تلوار اور گھوڑے کو بھی: ''یہ مجسمہ سلطنت عثمانیہ کے لیے ہماری محبت کی نشانی ہے اور جو جہاد ارطغرل نے کیا، اس سے ہمیں (مسلمانوں) دنیا بھر میں عزت نصیب ہوئی۔‘‘
پاکستان کے سرکاری ٹیلی وژن پی ٹی وی نے رمضان کے دوران اس ڈرامے کو اردو میں نشر کرنا شروع کیا تھا اور تب سے یہ پی ٹی وی کی تاریخ میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا پروگرام بن گیا ہے۔ پی ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر عامر منظور کا روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ابھی تک کسی پروگرام نے پاکستان میں اتنی ہلچل نہیں مچائی، جتنی اس ڈرامے نے مچائی ہے: ''لوگوں کے خیال میں یہ ترک گیم آف تھرونز ہے۔‘‘
پہلے دو ماہ میں پی ٹی وی کے یو ٹیوب چینل پر اس کی پہلی قسط کو 58 ملین سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں جبکہ اس مکمل سیریل کے 250 ملین سے زائد ویوز ہیں۔ دوسری جانب ترکی کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اس شو کے لیے رائلٹی بھی معاف کر دی ہے۔
محمد شہزاد چیمہ کا کہنا تھا، ''لوگ دور دراز سے صرف اس مجسمے کے ساتھ سیلفیاں لینے کے لیے آ رہے ہیں جبکہ مقامی رہائشیوں کا مطالبہ ہے کہ اس چوک کا نام بھی ارطغرل چوک رکھ دیا جائے۔‘‘ اس پروگرام کو پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی 'فحاشی‘ کا مقابلہ کیا جا سکے گا اور پاکستان میں خاندانی ثقافت کی ترویج ہو گی۔
’ارطغرل غازی‘، یکطرفہ ٹریفک نہیں چلنا چاہیے
پاکستان میں اسے ہالی اور بالی ووڈ کی فلموں کا ایک بہترین نعم البدل بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی عوام میں اس تاریخی ڈرامے کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایک مسلم ملک کی پیش کش ہے، جس میں اسلامی روایات کی حساسیت کا خیال رکھا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس ڈرامے کی پروڈکشن کسی لحاظ سے بالی یا ہالی ووڈ کی فلموں سے کم نہیں ہے۔ خوبصورت لوکیشنز اور کرداروں کو تیکنیکی اعتبار سے بھی مہارت کے ساتھ فلم بند کیا گیا ہے۔ پاکستانی عوام ان مسلم کرداروں سے زیادہ بہتر طریقے سے خود کو جوڑ سکتے ہیں۔
ا ا / ا ب ا ( روئٹرز، ڈی ڈبلیو)