لیبیا: اقوام متحدہ نے عبوری وزیر اعظم کی حمایت کی
11 فروری 2022اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گرچہ لیبیا کی پارلیمان میں قانون سازوں نے قومی اتحاد کی عبوری حکومت کے سربراہ عبدالحمید الدبیبہ کو تبدیل کرنے اور ان کی جگہ ایک نئے رہنما کے حق میں ووٹ کیا ہے تاہم وہ عبدالحمید کی انتظامیہ کو اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
لیبیا کی پارلیمنٹ نے جمعرات کو متفقہ طور پر عبدالحمید الدبیبہ کی جگہ سابق وزیر داخلہ فتحی باش آغا کو ملک کی عبوری حکومت کا نیا سربراہ مقرر کرنے کے حق میں ووٹ کیا۔
اس حوالے سے جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجارک سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اقوام متحدہ اب بھی الدبیبہ کو عبوری وزیر اعظم کے طور پر تسلیم کرتا ہے؟ تو ان کا جواب تھا، ''مختصر جواب تو یہی ہو گا کہ ہاں۔''
لیبیا میں سیاسی افراتفری
لیبیا میں 2011 میں سابق حکمران معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک کوئی مستحکم حکومت نہیں قائم ہو پائی ہے۔ ملک میں صدارتی انتخابات گزشتہ دسمبر میں ہونے والے تھے، تاہم تمام کوششوں کے باوجود سیاسی حریف انتخابی اصولوں پر متفق نہ ہو سکے جس کی وجہ سے یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی۔
عبوری وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ کی قومی اتحاد حکومت کو فروری 2021 میں اقوام متحدہ کی ثالثی کے ذریعے قائم کیا گیا تھا، جس کا مقصد انتخابات کے انعقاد تک ایک شفاف انتظامیہ کو برقرار رکھنا تھا۔
طرابلس میں موجود الدبیبہ کی عبوری حکومت کو اب مشرقی لیبیا میں قائم پارلیمنٹ کی حمایت حاصل نہیں ہے، جو عبوری وزیر اعظم منتخب کر کے اقتدار خود سنبھالنا چاہتی ہے۔
پارلیمنٹ نے اس پر ووٹنگ سے قبل بحث کے دوران یہ دلیل دی کہ چونکہ الدبیبہ دسمبر میں صدارتی انتخابات کرانے میں ناکام رہے اس لیے اسی کے ساتھ ان کے مینڈیٹ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ لیکن پارلیمان کی جانب سے نئے وزیر اعظم کو منتخب کرنے کے فیصلے کے بعد سینکڑوں افراد طرابلس کی سڑکوں پر نکل آئے اور فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔
عبوری وزیر اعظم عہدہ چھوڑنے سے انکار کر سکتے ہیں
عبوری حکومت کے سربراہ عبدالحمید الدبیبہ نے متنبہ کیا کہ ان کی برطرفی ملک کی ''تقسیم اور افراتفری'' کا باعث بنے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک وہ کسی منتخب حکومت کو اقتدار نہیں سونپ دیتے اس وقت تک وہ اپنا عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔
انہوں نے منگل کے روز اپنے ایک ٹیلیویژن خطاب میں کہا، ''ہم نئے عبوری مراحل کی اجازت نہیں دیں گے اور حکومت میں اپنے کردار سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ ہم نے عوام کے سامنے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔''
یہ سیاسی تقسیم لیبیا کے استحکام کے لیے پھر ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے، جو مشرق اور مغرب میں کام کرنے والی دو متوازی حکومتوں سے پہلے ہی دو چار ہے۔ سن 2014 اور 2020 سے، جنگ بندی کے درمیان ان دونوں حکومتوں کو متحارب دھڑوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت مشرق و مغرب میں کسی کھلے تنازعے کی طرف واپسی کا امکان کم ہے کیونکہ حریف دھڑوں میں اندرونی طاقت کے حرکیات کافی حد تک بکھر چکے ہیں۔
پارلیمان نے الدبیبہ کی جگہ جس رہنما فتحی باش آغا کو منتخب کیا ہے انہیں بھی اب اپنی ایک نئی عبوری حکومت کی تشکیل کی ضرورت ہو گی تاکہ وہ اپنی تقرری سے سیاسی اثرو رسوخ قائم کر سکیں۔ یہ ممکنہ طور پر ایک طویل عمل ہو سکتا کیونکہ حریف دھڑے عہدے کے لیے پہلے سے ہی لڑ رہے ہیں۔
ادھر الدبیبہ کا کہنا ہے کہ جون میں انتخابات کے انعقاد کے لیے ''روڈ میپ'' پر اتفاق رائے کے لیے مشاورت شروع کر دی گئی ہے۔ تاہم، ان انتخابات کی ابھی تک کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔