1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متضاد مقاصد امریکا کی نئی مشرق وسطیٰ پالیسی کو مشکل تر بنانے کا سبب

کشور مصطفیٰ25 جون 2014

امریکا ماضی کی طرح اب بھی سیاسی اور مذہبی دونوں اعتبار سے بُری طرح سے منتشر اس خطے میں اپنے کردار کو اہم سمجھتے ہوئے اُس کے معاملات میں پوری طرح ملوث رہنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CPyV
تصویر: Reuters

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے گزشتہ دو روز کے دوران بحران زدہ عرب ریاست عراق کا دورہ کیا۔ اس سے پہلے بھی وہ گزشتہ چند ماہ کے دوران مشرق وسطیٰ کے متعدد دورے کر چُکے ہیں۔ جان کیری کا بار بار مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکا ماضی کی طرح اب بھی سیاسی اور مذہبی دونوں اعتبار سے بُری طرح سے منتشر اس خطے میں اپنے کردار کو اہم سمجھتے ہوئے اُس کے معاملات میں پوری طرح ملوث رہنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔

ماہرین، صحافیوں اور ابلاغ عامہ کے خیال میں دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی خارجہ پالیسی کے معاملات میں ان کی حکومتیں سب سے پہلے دنیا کے مختلف مذاہب کے ساتھ اپنے سلوک اور روابط سے متعلق وسیع منصوبہ تیار کرتی ہیں۔ سابق امریکی صدر ’جارج بُش سینیئر‘ نے اس کے لیے ’ویژن تھنگ‘ یا ’تصور‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اور اگر سیاستدانوں سے اس عمل میں کہیں کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کی تلافی انہیں میڈیا اور ووٹروں کے ذریعے کرنا پڑتی ہے۔ اس قسم کی حکمت عملی جس کا زور و شور سے مطالبہ کیا جاتا ہے اس لیے نہایت مشکل ہوتی ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ جیسے کثیر الجہتی خطے کے لیے خارجہ پالیسی سے متعلق حکمت عملی کو سہل اور مختصر خلاصے کی صورت میں پیش کرنا گویا کوزے میں دریا کو سمونے کی کوشش کرنا ہے۔

Obama in Kairo Flash-Galerie
2009 ء میں قاہرہ میں اوباما نے تاریخی خطاب کیا تھاتصویر: AP

موجودہ امریکی حکومت صدر باراک اوباما کی جون 2009 ء میں قاہرہ میں کی جانے والی مشہور زمانہ تقریر کے گیت گا سکتی ہے۔ جس کا عنوان تھا، ’’ایک نئی ابتداء۔‘‘ اوباما کی تقریر کے مرکزی نکات عالم اسلام اور مغرب کے مابین بہتر تعلقات کا فروغ، اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن و مفاہمت اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ تھا۔ پانچ سال بعد بے رحم حقائق سامنے آئے اور اوباما نے قاہرہ کی تقریر میں مشرق وسطیٰ پالیسی کے حوالے سے جو حکمت عملی پیش کی تھی اُسے کاری ضرب لگی ہے۔

گمراہ کُن حکمت عملی

عراق میں بُش حکومت کی مداخلت کے بعد سے مشرق وسطیٰ سے متعلق کوئی حتمی حکمت عملی نہیں پائی جاتی ہے۔ یہ کہنا ہے امریکن یونیورسٹی آف پیرس کے بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر ’ہال گارڈنر‘ کا۔ وہ اوباما کی، اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن مذاکرات کے عمل میں دوبارہ سے روح پھونکنے کی ماضی کی اور حالیہ کوششوں کو مشرق وسطیٰ پالیسی کی حکمت عملی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ گارڈنر کہتے ہیں،’’ اوباما کی سربراہی میں واشنگٹن حکومت نے اپنا ایک اہم مقصد بنا کر اسرائیل اور فلسطین کو قریب لانے کی کم از کم کوشش تو کی۔‘‘

جس طرح بہت سے افراد اوباما کی مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کی کوششوں کی ناکامی کے اندازے لگا رہے تھے اُسی طرح پروفیسر گارڈنرکا بھی یہ کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ امن پیش قدمی ناکام ہے اور اس کے منفی اثرات تمام خطے پر پڑے ہیں۔

US Präsident Obama und Israels Premier Ministe Benjamin Netanjahu
امریکی صدر اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن مذاکرات کی بحالی کی کوششوں میں مصروفتصویر: picture-alliance/dpa

ایک وسیع منصوبہ ناممکن ہے

دی ہیگ میں قائم ہالینڈ کے بین الاقوامی تعلقات کے انسٹیٹوٹ سے منسلک ایک ماہر فان وین کے مطابق اوباما کی قاہرہ کی تقریر میں مشرق وسطیٰ کے امن کے بارے میں کچھ بھی کہا گیا ہو، یہ امر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس خطے میں جو قومی، نسلی اور مذہبی مرکب پایا جاتا ہے وہ وہاں ایک متحدہ حکمت عملی پر عمل درآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

فان وین کہتے ہیں،’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے۔ امریکا نے مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنی پالیسی میں چند نہایت واضح اہداف طے کر رکھے ہیں تاہم واشنگٹن کا مسئلہ ان اہداف کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ اور مربوط بنانا ہے۔‘‘