1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ قانون پر نصیرالدین شاہ و انوپم کھیر میں الفاظ کی جنگ

جاوید اختر، نئی دہلی
23 جنوری 2020

بھارت میں متنازعہ شہریت ترميمی قانون پر جاری ملک گير احتجاجی مظاہروں کے سبب اب بالی ووڈ کے دو سینئر اداکاروں نصیرالدین شاہ اور انوپم کھیر میں بھی زبانی جنگ چھڑ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3WgqU
Indien Film Kino Dedh Ishiya Regisseur Naseeruddin Shah
تصویر: DW/S. Waheed

فلم 'A Wednesday‘ میں جب يہ دونوں اداکار ایک دوسرے سے بحث کرتے دکھائی ديے، تو کسے معلوم تھا کہ ان کی یہ بحث فلمی پردے تک ہی محدود نہیں رہنے والی ہے بلکہ کبھی نہ کبھی سیاسی میدان تک بھی آن پہنچے گی۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) پر اس وقت بھارتی معاشرے کی طرح فلمی صنعت بھی دو خیموں میں بٹ گئی ہے۔

ایک ویب سائٹ نے سی اے اے پر نصیرالدین شاہ کی رائے معلوم کی، تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والے لوگ کم ہوتے ہیں۔ ان کے بقول اس کے بارے میں بولنے والے لوگ ٹوئٹر پر ہیں اور وہ خود ٹوئٹر پر نہیں ہيں۔ نصيرالدين  شاہ نے کہا، ''انوپم کھیر جیسے لوگ کافی کھل کر بات کرتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ان کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ ایک جوکر ہیں۔ ایف ٹی آئی آئی (فلم اور ٹیلی وژن انسٹیٹیوٹ) اور این ایس ڈی (نیشنل اسکول آف ڈرامہ)کے ان کے ہم عصروں میں بہت سے ان کی سائیکوپیتھک فطرت سے واقف ہيں۔یہ ان کے خون میں ہے، وہ کسی کی مدد نہیں کر سکتے۔"

واضح رہے کہ انوپم کھیر نے متنازعہ قانون کی حمایت کرتے ہوئے اس کے خلاف جاری مظاہروں کی مخالفت ميں متعدد ٹوئيٹس کی ہيں۔ انوپم کھیر کی اہلیہ اور خود بھی ايک اداکارہ کرن کھیر چنڈی گڑھ سے حکمران جماعت بھارتيہ جنتا پارٹی کی رکن پارلیمان ہیں۔

Indien Bollywood Schauspieler Anupam Kher
تصویر: Getty Images for Doha Film Institute

انوپم کھير ان دنوں اپنے شو'نیو ایمسٹرڈم‘ کی شوٹنگ ميں مصروف ہيں۔ نصيرالدين شاہ کے بيان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے انوپم کھير نے ايمسٹرڈيم سے ايک ويڈيو پيغام ميں اپنا موقف بيان کيا۔ انہوں نے کہا، ''نصیرالدین شاہ صاحب کے لیے میرا پیار بھرا پیغام۔ وہ مجھ سے بڑے ہیں، عمر میں بھی اور تجربے میں بھی۔ میں ہمیشہ ان کے فن کی عزت کرتا آيا ہوں اور کرتا رہوں گا لیکن کبھی کبھی باتوں کا دو ٹوک جواب دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔‘‘ انوپم کھیر نے ویڈیو میں مزيد کہا، ”میں آپ کو اور آپ کی باتوں کو بالکل بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ حالانکہ میں نے کبھی بھی آپ کی برائی نہیں کی۔ آپ کو بھلا برا نہیں کہا۔ اب ضرور کہنا چاہوں گا کہ آپ نے اپنی پوری زندگی اتنی کامیابی ملنے کے باوجود فرسٹریشن میں گزاری ہے۔ اگر آپ دلیپ کمار صاحب، امیتابھ بچن صاحب، راجیش کھنہ صاحب، شاہ رخ خان، وراٹ کوہلی کی نکتہ چینی کر سکتے ہیں، تو مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میں اچھی سنگت میں ہوں۔ ان میں سے کسی نے بھی آپ کے بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ برسوں سے آپ جن چیزوں کا استعمال کرتے ہیں، ان کی وجہ سے کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے، آپ کو اس کا فرق ہی پتہ نہیں چلتا۔ میری برائی کر کے اگر آپ ایک دو دن کے لیے سرخیوں میں آتے ہیں، تو میری طرف سے آ پ کو یہ خوشی مبارک ہو۔ آپ خوش رہيں۔ آپ جانتے ہیں میرے خون میں کیا ہے؟ میرے خون میں ہے ہندوستان۔ آپ اس کو سمجھ جائیے بس۔ جے ہو‘‘!

یہ ايسا پہلا موقع نہیں، جب نصیرالدین شاہ اور انوپم کھیر کے درمیان تکرار ہوئی ہے۔ اس سے پہلے پر تشدد واقعات اور اپنے بچوں کی سلامتی کے خوف سے متعلق نصیرالدین شاہ کے بیانات پر بھی انوپم کھیر نے نکتہ چینی کی تھی۔

کشمیری پنڈتوں کی آبادکاری کے معاملے پر جب انوپم کھیر نے آواز اٹھائی، تو نصیرالدین شاہ نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا، ”جو شخص آج تک کشمیر میں نہیں رہا، وہ آج کشمیری پنڈتوں کے لیے لڑ رہا ہے۔ اچانک وہ ایک مہاجر بن گیا ہے۔"

نصیرالدین شاہ نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر ہونے والے مبينہ حملوں کی بھی مذمت کی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”مجھے لگتا ہے کہ جن لوگوں کو پتہ نہیں کہ طالب علم ہونا کیا ہوتا ہے، وہ طلبہ اور دانشوروں کو ایک بیماری سمجھتے ہیں۔ اس لیے حیرت کی بات نہیں کہ وزیر اعظم کو طلبہ کے ليے کوئی ہمدردی یا رحم نہیں ہے۔ وہ خود کبھی طالب علم نہیں رہے۔ ان کا ایک ویڈیو کلپ ہے، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے انہوں نے کبھی پڑھائی نہیں کی، تو آپ ان سے طلبہ کے ليے ہمدردی کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں؟"