1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’محبت اور رواداری‘ایک ناقابل یقین شامی داستان   

6 جنوری 2019

حنان اور ہدا عثمان نے یہ سچ کر دکھایا۔ ان دونوں شامی شہریوں کو مختلف مذاہب کی وجہ سے اپنے ملک میں مسائل کا سامنا تھا تاہم اب یہ جوڑا شمالی جرمنی میں آزاد اور خود مختار زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3B5nh
Deutschland Migranten aus Syrien
تصویر: Privat

محبت کی اس کہانی کی شروعات دمشق سے ہوئی اور اختتام لیؤبک میں ہوا۔ اس کہانی میں پیار کو رسم و رواج  اور عقائد پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس کہانی کے کرداروں کو یہ یقین ہی نہیں تھا کہ پر مسرت زندگی کا ان کا خواب ایک ایسی جگہ پر پورا ہو گا، جس کا انہوں نے کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا۔ ایک ایسی جگہ جس نے انہیں تحفظ اور سلامتی کا احساس دیا ہے۔

 اس کہانی کی ابتداء آج سے تیس برس قبل ہوئی تھی۔حنان عثمان ابھی نوجوان تھے۔ حلب کے ایک قریبی علاقے سے تعلق رکھنے والے اس کرد ایزدی نوجوان نے روزگار کی تلاش میں دمشق کا رخ کیا۔ شامی دارالحکومت کے قریب اس کی ملاقات ایک عرب مسلم نوجوان لڑکی ہدا سے ہوئی اور یہاں سے ان کی زندگی ایک نئے رخ پر چل پڑی۔ محبت سے سرشار اس جوڑےکو بخوبی علم تھا کہ انہیں اپنے عشق کی تکمیل میں بہت سی دشواریاں کا سامنا کرنا پڑے گا تاہم اس کے باوجود انہوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔

Deutschland Migranten aus Syrien
تصویر: Privat

شام کے قدامت پسند علاقوں میں ایزدی اور مسلمان آپس میں شادیاں نہیں کرتے۔ ہدا کو جب علم ہوا کہ اس کے والدین اس شادی کو رکوانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں تو اس نے ہر حال میں حنان سے شادی کرنے کی ٹھان لی۔

تعصب کے خلاف جنگ

مشکلات فوری ہی شروع ہو گئیں۔ اس جوڑے نے حنان کے آبائی علاقے میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں نہ تو حنان کے خاندان والوں اور نہ ہی ایزدی برادری نے انہیں خوش آمدید کہا اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ رکھا۔

حنان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ، ’’وہ ایک مشکل وقت تھا۔ میرے گھر والوں اور دوستوں نے مجھے ایک طرح سے مسترد کر دیا۔ صرف میرے والدین ہی تھے، جو چھ ماہ بعد ہم سے مل لیتے تھے۔ وہ صرف مجھ سے ملتے تھے، میری اہلیہ کی بے عزتی کرتے تھے اور اسے حقیر سمجھتے تھے۔‘‘

 انہوں نے مزید بتایا، ’’تمام تر مخالفت کے بعد بھی میں اپنے موقف پر قائم رہا اور اپنی شادی کے فیصلے کا دفاع کیا۔ میں نے انہیں منع کیا کہ وہ میری بیوی کو برا بھلا نہ کہیں۔‘‘

حنان کے مطابق تمام تر عداوتوں کے باوجود وہ ہمیں الگ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کے چار بچے ہیں، تین بیٹے اور ایک بیٹی۔ حنان کے مطابق ہدا کے صلح جو کردار، اس کے  تحمل اور دانائی کی وجہ سے یہ کٹھن سفر آسان ہوا۔

 عقیدے کی تکریم

Deutschland Migranten aus Syrien
تصویر: Privat

اس جوڑے کی کامیاب زندگی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کیا، ’’ 2009ء میں میری بیوی  اپنی بہن کے ساتھ حج کرنے گئی تھی۔ ہمارے بچوں کو مذہب کے انتخاب کی آزادی ہے۔ کچھ نے میرا مذہب اختیار کیا ہے اور کچھ نے ماں کا۔‘‘ حنان کے بقول وہ ایک پولیس افسر تھا اس وجہ سے ان کے خاندان کو ایک طرح کا تحفظ حاصل تھا۔

فرار

شام میں خانہ جنگی اور پھر اسلامک اسٹیٹ کے حملوں کے بعد یہ جوڑا ترکی آ گیا۔ حنان نے بتایا، ’’میرے بچوں کے پاس یونیورسٹی کی ڈگریاں ہیں اور ترکی میں ہمیں بہت ہی مشکل صورتحال نے آن گھیرا۔ ہمیں نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم سے کام لیا گیا اور  وقت پر پیسے نہیں دیے گئے۔ میرے بچوں نے جب پیسے نہ ملنے کی شکایات کیں تو ان کے مالکان نے انہیں نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی۔‘‘

حنان نے اپنی کہانی سناتے ہوئے مزید بتایا کہ وہ لوگ پیسے بچانے کی خاطر دن میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھاتے تھے تاکہ وہ یونان اور پھر جرمنی پہنچ سکیں۔ اس کے بعد حنان اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ یونان سے ہوتے ہوئے جرمنی پہنچے۔ اس کے دو ماہ بعد انہوں نے پیسے ادھار لے کر اپنے بقیہ گھروالوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔

نیا مسکن

عثمان خاندان بہت جلد ہی جرمنی میں انضمام کی ایک مثال بن گیا۔ دمشق یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ڈگری حاصل کرنے والے بڑے بیٹے کو ہیمبرگ کے ایک تعلیمی ادارے میں نوکری مل گئی۔ دوسرا بیٹا لیؤبک یونیورسٹی میں روبوٹک کی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور ساتھ ہی بہن بھی اسی یونیورسٹی میں میڈیکل ٹیکنالوجی پڑھ رہی ہے۔ جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا یونیورسٹی میں اپنے داخلے کا انتظار کر رہا ہے۔

حنان اور ہدا جرمن زبان سکیھ رہے ہیں۔ حنان کو بھی ایک دفتر میں ملازمت مل گئی ہے۔ حنان کے مطابق، ’’ہم خوش ہیں کہ ہمیں نیا مسکن مل گیا ہے۔ جرمنی نے ہمیں وہ تحفظ اور استحکام دیا ہے، جس کا ہم ہمیشہ سے خواب دیکھتے تھے۔‘‘

’محبت کا راستہ معدے سے ہو کر گزرتا ہے‘