’جہاں محبت کی سزا موت ہے‘
11 نومبر 2018نحیف سے جسم والی چھبیس سالہ مدیحہ کی لاش چند روز پہلے ایک کھیت سے ملی تھی۔ ایک مقامی کسان نے دیکھتے ہی پولیس کو فون کیا۔ موقع پر بنائی جانے والی تصاویر دیکھنے کے لیے بھی پتھر جیسا سخت دل چاہیے۔ کٹے ہوئے گلے سے دائیں جانب بہنے والا خون کچھ مٹی چوس چکی ہے اور کچھ دوپٹے پر جم چکا ہے۔ جسم سے سارا خون بہہ جانے کی وجہ سے تیکھے نین نقش والی اس لڑکی کا سانولا چہرہ خزاں کے پتے کی طرح پیلا پڑ چکا ہے۔ آدھی کھلی دائیں آنکھ کے اندر تین چار تنکے گھسے ہوئے ہیں، پپڑی جمے ہونٹوں میں دانت نظر آ رہے ہیں اور دانتوں کے شکنجے میں زبان دبی ہوئی ہے۔ موت سے پہلے شاید اس لڑکی نے ایک مرتبہ پھر بھاگنے کی کوشش کی ہو، کمزور بازوں سے خود کو چھڑوانے کی کوشش بھی کی ہو، شاید یہ زور زور سے چیخی بھی ہو اور شاید قاتلوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی ہو اور چند سانسوں کی بھیک بھی طلب کی ہو۔ لیکن قاتل طاقتور تھے ان کے سینوں میں دل نہیں پتھر تھے۔
مدیحہ کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب کی تحصیل نوشہرہ ورکاں کے گاؤں بڈھا گورائیہ سے تھا۔ نوشہرہ ورکاں کے پولیس انسپکٹر علی اکبر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس لڑکی نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔ اسے اس کی والدہ اور دو بھائیوں نے مل کر غیرت کے نام پر قتل کیا ہے۔‘‘
چار برس پہلے یہ ایک لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوئی اور گھر سے بھاگ گئی تھی۔ چند روز پہلے اس کے والدین نے مقتولہ کی بڑی بہن کے ذریعے اس سے رابطہ کیا۔ اسے یقین دلایا گیا کہ اگر وہ گھر واپس آئے تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔ پولیس کی حراست میں موجود لڑکی کی والدہ اقبال بی بی نے ڈی ڈبلیو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ مدیحہ کا قتل کیسے کیا گیا تھا، ’’ہم اس کے پاس گئے اور کہا کہ تم واپس آ جاؤ، ہم تمہیں معاف کرتے ہیں۔ واپسی کے راستے میں دونوں بیٹوں نے مجھے کہا کہ تم موٹر سائیکل کے پاس رکو، میں وہاں کھڑی رہی اور انہوں نے مدیحہ کھیتوں میں لے جا کر اس کا گلا کاٹ دیا۔‘‘
پولیس نے مقتولہ کی جیب میں موجود ایک ٹیلی فون نمبر کے ڈیٹا سے ملزمان کو تلاش کیا اور اگر یہ ٹیلی فون نمبر نہ ہوتا تو یہ بھی کئی دیگر لڑکیوں کے طرح کسی بے نام قبر میں اتار دی جاتی اور اس کے قاتل بھی کبھی نہ پکڑے جاتے۔ تینوں ملزمان کا کہنا ہے کہ مدیحہ نے اپنی محبت کے لیے گھر سے بھاگ کر ان کی عزت کو خاک میں ملا دیا تھا۔
مدیحہ وہ پہلی یا آخری لڑکی نہیں ہے جسے غیرت نام پر یا پھر محبت کرنے کے جرم میں اس بے دردی سے قتل کیا گیا ہو۔ پاکستان میں سالانہ سینکڑوں ایسی خواتین کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چیئرپرسن زہرا یوسف کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’سن دو ہزار سترہ میں غیرت کے نام پر تقریبا سات سو قتل کیے گئے تھے۔ عموماﹰ ایسے رجسٹرڈ کیسوں کی تعداد ایک ہزار سے سات سو کے درمیان ہوتی ہے۔‘‘
گزشتہ بدھ پنجاب کے ہی شہر رحیم یار خان میں دو بہنوں کو ایک ساتھ گلا دبا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ مقامی پولیس کے مطابق یہ دونوں لڑکیاں اپنے کسی دوست سے ملنے گئی تھیں، جونہی گھر پہنچی تو چچا زاد بھائیوں نے غیرت کے نام پر دونوں کو قتل کر دیا۔ پولیس نے ملزمان کو حراست میں لے لیا ہے۔ اس سے ایک روز بعد نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے آبائی علاقے سوات میں ایک شوہر نے اپنی بیوی کو عدالت میں خنجر کے وار کرتے ہوئے قتل کر دیا۔ مقتولہ اپنی شوہر سے طلاق لیتے ہوئے اپنی مرضی کی شادی کرنا چاہتی تھی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے اصل اعداد و شمار حاصل کرنا ناممکن ہے۔ بہت سے کیس پولیس کو رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔ لاش کا پوسٹ مارٹم ضروری نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے گھر والوں کی طرف سے لڑکی کے قتل کو فطری موت ظاہر کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو غیرت کے نام پر کیوں قتل کیا جاتا ہے؟ اس حوالے سے زہرا یوسف بتاتی ہیں، ’’پاکستانی معاشرہ بڑی حد تک جاگیردارانہ، قدامت پسند اور روایتی ہے۔ مرد عورتوں پر کنٹرول چاہتے ہیں، انہیں اپنی پراپرٹی سمجھتے ہیں۔ کسی طرح کی آزادی دینا مناسب نہیں سمجھتے۔ یہ ایک روایت ہے اس خطے کی، بھارت اور افغانستان میں بھی اسی طرح کے قتل ہوتے ہیں، اسے تبدیل ہونے ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔‘‘ پاکستان میں عزت کے نام پر سزائیں نہ صرف انفرادی بلکہ دیہی علاقوں میں جرگے اور پنچائیتیں بھی سناتی ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کرنے والے رشتہ داروں کے لیے قانون میں نرمی کی جڑیں برصغیر میں برطانوی نو آبادیاتی راج سے جڑی ہوئی ہیں۔ 1860ء میں برطانیہ نے پینل کوڈ بنایا تھا، جو ایسے مردوں کے حق میں جاتا تھا، جن کی بیٹیاں، بیویاں یا پھر بہنیں ان کی ’عزت کو نقصان‘ پہنچاتی ہیں۔ اس قانون کے تحت اگر کوئی قاتل مرد یہ ثابت کر دے کہ اس نے ’اشتعال انگیزی‘ دلانے کے بعد یہ قتل کیا ہے تو اس کے لیے عمداﹰ قتل کی بجائے ’غیر ارادی قتل‘ کی سزا رکھی گئی تھی، جو کم تھی۔ 1990ء میں پاکستان حکومت نے اس پینل کوڈ میں مزید تبدیلی کرتے ہوئے اس میں اسلامی قوانین کے تین عناصر ولی، قصاص اور دیت بھی شامل کر دیے۔ اس قانون کی مطابق ولی کو ایسے کیسوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور ولی اکثر قاتل رشتہ دار کو معاف کر دیتا تھا۔
سن دو ہزار سولہ میں ایک پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور حکومت نے غیرت کے نام پر ہونے والی قتل کی ان وارداتوں کو روکنے کے لیے نیا قانون ’فساد فی الارض‘ متعارف کروایا۔ اس قانون کے تحت مقتولہ کے کسی بھی رشتے دار کو غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو معاف کرنے کی اجازت نہیں اور قاتل کے لیے سزائے موت یا پھر عمر قید بھی لازمی ہے۔
تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ دو ہزار سترہ ، اٹھارہ کے مطابق پاکستان میں یہ نیا قانون بھی زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو رہا اور غیرت کے نام پر ہونے والی قتل کی وارداتوں میں کوئی واضح کمی نہیں آئی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق اس نئے قانون میں بھی کئی سقم ہیں۔ اس قانون کے مطابق جج کو یہ اختیار ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ آیا لڑکی کا قتل غیرت کے نام پر یا کسی دوسری وجہ سے کیا گیا تھا۔ ایمنسٹی کے مطابق سن دو ہزار سترہ میں متعدد ایسے کیس تھے، جن میں ملزمان نے یہ ثابت کیا کہ متاثرہ خاتون کا قتل غیرت کے نام پر نہیں بلکہ کسی دوسری وجہ سے کیا گیا تھا اور پھر مقتولہ کے خاندان والوں نے قصاص اور دیت کے قانون کے تحت قاتل کو معاف کر دیا۔
اس معاملے کو مزید پیچیدہ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں غیرت کے حوالے سے پائی جانے والی سوچ بنا دیتی ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں امریکی ریسرچ سینٹر ’پیو‘ کی جانب سے کروائے جانے والے ایک سروے کے مطابق ہر دس میں سے چار پاکستانی سمجھتے ہیں کہ غیرت کے نام پر بعض اوقات لڑکی کا قتل جائز ہے۔
زہرا یوسف کہتی ہیں کی حکومت کو خواتین کے حقوق کے لیے مزید قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر عمل درآمد کی کوششیں بھی تیز کرنی چاہییں جبکہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے عوامی سطح پر آگاہی مہم کا چلانا انتہائی ضروری ہے۔
پاکستانی صحافی سبوخ سید اس معاملے میں حکومت اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ملک کی بڑی اور طاقتور سمجھی جانے والی مذہبی تنظیموں کی خاموشی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ مذہبی جماعتیں دن رات احتجاج کرتی ہیں لیکن، ’’اس ظلم کے خلاف کوئی بھی سڑکوں پر نکل کے احتجاج کرنے کو تیار نہیں ہے، انہیں یہ مسئلہ ہی نہیں لگتا۔‘‘
پاکستان میں جو احتجاج کر رہی ہیں، وہ بس مدیحہ جیسی لڑکیوں کی بے نام قبروں میں پڑی وہ لاشیں ہیں، جن کے جنازے رات کی تاریکی میں پڑھا دیے جاتے ہیں اور کوئی ایک بھی رشتہ دار ان میں شریک نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے ان لاشوں کی آہیں، ان کے آنسو ، ان کی ہچکیاں، ان کی منتیں، ان کے غم، ان کے دکھ، ان کی تکلیفیں اور ان کی چیخیں کسی کو بھی سنائی نہیں دیتیں۔