مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں، پاکستانی طالبان
23 اگست 2013پاکستانی طالبان کے ايک سينيئر کمانڈر عصمت اللہ معاويہ نے جمعرات کے روز جاری کردہ اپنے ايک بيان ميں پاکستانی وزير اعظم نواز شريف کی جانب سے پیر کے روز کی جانے والی امن مذاکرات کی پيشکش کا خير مقدم کيا ہے۔ معاويہ کے بقول اگر پاکستان مسلح تنازعے کے حل کے ليے سنجيدہ ہے تو طالبان کو بھی اس پر مثبت رد عمل کا اظہار کرنا چاہيے۔ معاويہ کو پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والےاسلامی عسکریت پسندوں کا سربراہ بتايا جاتا ہے۔ انہیں پنجابی طالبان بھی کہا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ وزير اعظم نواز شريف نے پیر کے روز ٹيلی وژن پر نشر کردہ اپنی ايک تقرير ميں ملک ميں جاری خوں ريزی کے خاتمے کے ليے طالبان کو بات چيت کی پيشکش کی تھی۔
معاویہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے مذاکرات کی پیشکش کر کے ’’سیاسی پختگی‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔ طالبان کے کمانڈر کا مزید کہنا تھا، ’’اگر موجودہ حکومت معاملات کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور سمجھداری کا مظاہرہ کر رہی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں فعال جہادی طاقتیں اس کا مثبت جواب نہ دیں۔‘‘ یہ بیان معاویہ کی جانب سے صحافیوں کو بھجوایا گیا تھا۔
جنگ بندی کی شرائط
خبر رساں ادارہ اے پی اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ طالبان عسکریت پسندوں کی اعلیٰ قیادت معاویہ کے خیالات سے متفق ہے کہ نہیں۔ معاویہ طالبان کا وہ پہلا کمانڈر ہے جس نے گزشتہ برس بھی یہ اشارہ دیا تھا کہ طالبان حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اس وقت معاویہ نے اخبارات کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں مذاکرات کے لیے طالبان کی طرف سے شرائط درج کی گئی تھیں۔ جنگ بندی کے لیے پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا خاتمہ ایسی شرائط رکھی گئی تھیں۔ اس کے بعد حکیم اللہ محسود نے ایک وڈیو جاری کی تھی جس میں حکومت سے مذاکرات کی حامی تو بھری گئی تھی تاہم یہ بھی کہا گیا تھا کہ اسلامی شدت پسند ہتھیار نہیں پھینکیں گے۔
حملے جاری ہیں
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت کے بر خلاف مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گی اور فوجی کارروائی سے اجتناب برتے گی۔ دوسری جانب افغانستان سے ملحقہ خیبر پختون خواہ صوبے میں برسر اقتدار تحریک انصاف بھی اسلامی عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی حامی ہے۔ تاہم ان جماعتوں کے مذاکرات پر اصرار کے باوجود اس ضمن میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور طالبان کی جانب سے دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔