مصر: جرمن حکومت نے اسلحے کی برآمد پر پابندی لگا دی
7 فروری 2011بیاسی سالہ صدر مبارک کا موقف ہے کہ وہ رواں برس ستمبر میں ہونے والے انتخابات تک صدر کے عہدے پر براجمان رہیں گے۔ حکومتی عہدیدار مظاہرین کے نمائندوں اور اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ دریں اثناء امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ مصر میں حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے اور یہ کہ وہاں آزادانہ اور شفّاف انتخابات لازمی ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب جرمنی کی وزارتِ اقتصادیات نے کہا ہے کہ وہ مصر کو برآمد کیے جانے والے جرمن اسلحے کی منظوری نہیں دے گی۔ جرمن حکومت کے مطابق اس نے یہ فیصلہ مصری حکومت کی جانب سے صدر مبارک کے خلاف مظاہرے کرنے والوں پر تشدّد اور انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے احتجاجاً کیا ہے۔ جرمن وزارتِ اقتصادیات کے مطابق یہ پابندی غیر معینہ مدّت کے لیے ہے اور وہ اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ اُس اسلحے کی برآمد کو روک دیا جائے، جس کی حکومت پہلے منظوری دے چکی ہے۔
دوسری جانب مصری حکومت کے مطابق مصر کا اسٹاک ایکسچینج آئندہ اتوار سے دوبارہ کھل جائے گا۔ واضح رہے کہ صدر مبارک کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کی وجہ سے مصری اسٹاک ایکسچینج ایک ہفتہ سے زیادہ عرصے سے بند ہے۔ ستائیس جنوری کو اسٹاک ایکسچینج بند ہونے سے قبل مصری اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی دیکھی گئی تھی۔ قریباً دو ہفتوں سے جاری ان مظاہروں کی وجہ سے مصر میں کاروبار ٹھپ ہو کے رہ گیا ہے۔
ادھر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مصر، شمالی افریقہ اور دیگر عرب ممالک میں جاری احتجاج اور شورش یورپ میں غیر قانونی تارکینِ وطن کی آمد کا سبب بن سکتے ہیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل راسموسن کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی بحران ستائیس رکنی یورپی یونین کے لیے بالواسطہ خطرہ نہیں ہے تاہم اس کے اثرات مشرقِ وسطیٰ میں امن اور خطّے میں استحکام کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں پر پڑ سکتے ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی