ملا عمرکی موت کی خبر کو چھپایا گیا، طالبان کا اعتراف
31 اگست 2015افغان خفیہ اداروں کی طرف سے ملا عمر کی موت کی خبر جاری کرنے کے بعد 30 جولائی کو طالبان نے بھی ایک بیان میں ملا عمر کی موت کی تصدیق کر دی تھی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ملا عمر کی موت کب واقع ہوئی تھی۔
پیر کو طالبان کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں پہلی مرتبہ اعتراف کیا گیا ہے کہ ملا عمر کی موت 23 اپریل سن 2013 کو ہوئی تھی۔ یہ بات طالبان کے نئے لیڈر ملا اختر منصور کی جاری کی گئی سوانح عمری میں کی گئی ہے۔
طالبان کے نئے لیڈر ملا اختر منصور کی سوانح عمری میں لکھا گیا ہے کہ ’طالبان کی اعلی قیادت کے کچھ اہم ارکان اور مستند علماء نے مشترکہ فیصلہ کیا تھا کہ اس خبر کو صرف کچھ ایسے ساتھیوں تک محدود رکھا جائے، جو پہلے سے اس خبر سے آگاہ ہیں‘۔ اس خبر کو چھپانے کے پیچھے سب سے اہم وجہ یہ بھی تھی کہ غیر ملکی افواج سن 2014 کے اواخر تک افغانستان سے نکل جائیں گی اور افغانستان میں جاری فوجی آپریشن ایک نتیجہ خیزموڑ پر پہنچ چکا ہو گا۔
طالبان کے سابق رہنما ملا عمر کی موت کے باوجود بھی وہ طالبان باغیوں کے لیے ایک انتہائی اہم شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ مصبرین کے بقول افغانستان میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حمایت میں اضافہ روکنے کے لیے ملا عمر کی شخصیت اب بھی طالبان تحریک کو متحد رکھ سکتی ہے۔
کچھ اہم رہنماوں نے جن میں ملا عمر کا بیٹا اور بھائی بھی شامل ہیں، ملا اختر منصور کی حمایت کرنے سے انکار کردیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں لیڈر کے انتخاب میں جلد بازی کی گئی ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق سینکڑوں طالبان جنگجو اور کمانڈر پاکستان کے شہر کوئٹہ میں ملاقات کر رہے ہیں تاکہ قیادت کے اس تنازعے کو حل کیا جا سکے۔
دوسری طرف طالبان نے اپنے نئے منتخب لیڈر کی سوانح عمری پانچ مختلف زبانوں میں صحافیوں کو بھیجی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ سوانح عمری ملا اختر منصور کے حامیوں کی طرف سے ان کے حق میں کی گئی ایک کوشش ہے۔
افغان حکومت کی اعلیٰ امن کونسل کے ممبر اور سفارتکار حبیب اللہ فوزی کا کہنا ہے کہ طالبان کے بہت سے اعلیٰ اراکین ملا عمر کے بھائی منان اور بیٹے یعقوب کی حمایت کر رہے ہیں، ’’اس سے ظاہر ہوتا ہے طالبان کے صرف کچھ حلقوں نے ہی ملا اختر منصور کو اس عہدے پر تعینات کیا ہے۔‘‘