مجھے بچپن سے بتایا گیا کہ ان دو شخصیات نے جدید بھارت کی تاریخ میں اہم رول ادا کیا ہے۔ مہاتما گاندھی نے برطانوی استعمار سے آزادی دلوائی اور نہرو نے اپنے 17سالہ دور اقتدار میں اس کونہ صرف دوام بخشا بلکہ ملک کو سائنسی اور جمہوری خطوط پر لا کر ایک مستحکم نظام کی بنیاد ڈالی۔
پاکستان میں میرے اکثر جاننے والے یہ شکوہ کرتے ہیں کہ آزادی کے بعد کے ابتدائی دور میں نہرو جیسے کسی زیرک سیاستدان کی عدم موجودگی پاکستان میں عدم استحکام اور جمہوری نظام کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ ہے۔
لیکن 2014ء کے بعد، جب سے نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، تو بھارت کے پہلے وزیر اعظم نہرو کی تصاویر دفتروں، اسکولوں و نجی اداروں سے غائب ہونا شروع ہو گئیں۔ اگرچہ مہاتما گاندھی کی تصویریں اب بھی یا تو اکیلے یا ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بائی پٹیل کے ساتھ لٹکتی نظر آجاتی ہیں۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ محض اب وقت کی بات ہے کہ نہرو کی طرح گاندھی بھی جلد ہی تاریخ کے صفحات میں گم ہو جائیں گے۔ ویسے بھی اب پارلیمنٹ ہاؤس اور سینٹر ہال سے لے کر بہت سے دفاتر میں گاندھی کے ساتھ اب ہندو قوم پرست تحریک کے بانی وینائیک دامودر ساوارکر کی تصویر نظر آتی ہے۔ وہ گاندھی کے قتل کی سازش کرنے کی پاداش میں جیل بھی بھگت چکے ہیں۔
گو کہ ناکافی ثبوت کی وجہ سے وہ بری ہو گئے تھے مگر ان کے انتقال کے بعد ایک جسٹس جیون لال کپور کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن نے، جب دوبارہ سازش کی تحققق کی، تو ان کا رول خاصا واضح پایا۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ دنیا میں جہاں گاندھی اور ساوارکر ایک دوسرے کے ساتھ آنکھیں نہیں ملاتے تھے، پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں وہ آمنے سامنے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بھارت میں تاریخ کو ازسر نو لکھا جا رہا ہے۔ تاریخ میں بس ان ہی لیڈروں کی پذیرائی کی جا رہی ہے، جن کو ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی توثیق حاصل ہے۔
کشمیر کے مسئلہ سے لے کر سکھوں کے لئے کرتارپور صاحب راہداری کھولنے میں تاخیر، غرض ہر ایشو کے لئے نہرو حاضر ہے۔ ابھی حال ہی میں پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران تو خود وزیراعظم مودی نے نہرو کو کمزور اقتصادی پالیسی، مہنگائی اور بے روزگاری تک کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے گوا صوبہ کو پرتگال سے آزادی دلوانے میں تاخیر کرنے پر بھی نہرو کو آڑے ہاتھوں لیا۔ مودی نے کہا پنڈت نہرو اپنی ورلڈ لیڈر کے امیج کی حفاظت کرنے میں اتنے منہمک تھے کہ وہ داخلی مسائل کو اس پر قربان کرتے تھے۔
چونکہ موجودہ صوبائی انتخابات میں اپوزیشن نے مہنگائی کو ایشو بنا کر حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ مودی نے نہرو کی 1955ء کی تقریرکا حوالہ دے کر دلیل دینے کی کوشش کی کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم نے بھی کوریا جنگ کی وجہ سے پیدا شدہ عالمی بحران کا حوالہ دے کر مہنگائی کا دفاع کیا تھا۔ ان کے ذہن پر نہرو اس قدر سوار ہے کہ 2020ء میں متنازعہ شہریت قانون پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران انہوں نے 23 بار نہرو کا ذکر کیا۔
نہرو اور کانگریس کے ناقدین بھی یہ تسلیم کرتے آئے ہیں کہ نہرو نے ملک کو جدید اور سائنسی خطوط پر استوار کرنے کے لئے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) کے نام سے چار انتہائی جدید انجینیرنگ یونیورسٹیوں کی داغ بیل ڈالی۔
یہ ادارے نہ صرف بھارت کی مینوفیکچرنگ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں بلکہ امریکہ کی سائبر دنیا کو بھی انہی سے ماہرین مہیا ہوتے ہیں۔ مگر پچھلے سال کان پور کے آئی آئی ٹی کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے جم کر نہرو کو سست اقتصادی ترقی کے لئے مورد الزام ٹھہرایا۔
آئی آئی ٹی کے علا وہ ملک میں ایگریکلچر یونیورسٹیوں کی شروعات بھی نہرو کے ہی دور میں ہوئی تھی۔
دہلی میں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اور انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن بھی ان کے ہی دور میں قائم ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ فن اور ثقافت کے اعلیٰ ترین ادارے، فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، نیشنل اسکول آف ڈرامہ اور سنگیت ناٹک اکادمی بھی آزادی کے بعد کے پہلے 25 سالوں میں بنائے گئے۔
دہلی کے مشہور پرگتی میدان کے نہرو پویلین سے لے کر تین مورتی بھون تک، جس میں نہرو میموریل میوزیم اور ایک وسیع لائبریری موجود ہے، کے نام بدلنے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ تین مورتی بھون پہلے نہرو کی رہائش گاہ ہوتی تھی، جس کو بعد میں نہرو میوزیم اور لائبریری بنایا گیا۔ اس میں بیشتر کتابیں، نہرو کی ذاتی لائبریری سے لی گئی تھیں۔ نہرو میوزیم اب سبھی وزرائے اعظم کا میوزیم ہو گا۔
پچھلے سال بھارت کی آزادی کے 75 سال کا جشن مناتے ہوئے، انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ نے مجاہدین آزادی کا ایک پوسٹر جاری کیا، جس میں مہاتما گاندھی، بی آر امبیڈکر، سردار پٹیل، سبھاش چندر بوس، راجندر پرساد، مدن موہن مالویہ، بھگت سنگھ اور یہاں تک کہ ونائک دامودر ساورکر کی تصاویر بھی لگائی تھیں مگر نہرو، جو بھارت کے پہلے وزیر اعظم تھے، ان کو بھلا دیا گیا تھا۔
حد تو یہ ہوئی کہ گاندھی کیپ کی طرز پر بھارت میں نہرو واسکٹ خاصی مشہور تھی اور یہ بازاروں میں اسی نام سے بکتی تھی۔ مگر اس کو بھی چھین کر مودی جیکٹ کا نام دیا گیا اور اب اسی نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ سوال ہے کہ آخر کب تک کسی ایسے شخص کو تمام مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے، جس کو رخصت ہوئے بھی اب 50 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے۔
اس دوران دفتروں میں ایک اور تصویر کا اضافہ ہو گیا ہے اور یہ بھارت ماتا کی ایک تصویر ہے، جس کو سب سے پہلے بنکم چندر چٹرجی نے 1870 کی دہائی میں بنایا تھا اور بعد میں آر ایس ایس نے اس کو ایک دیوی کے روپ میں اپنا لیا تھا۔
مگر ان کو کون بتائے کہ اس میں بھارت کا جو نقشہ دیا گیا ہے، جس میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش حتیٰ کہ افغانستان اور میانمار بھی شامل ہیں، بس تین ہی بار تاریخ میں راجہ اشوک، اکبر اور برطانوی دور کے دوران ایک ساتھ تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ہندو یا سناتن دھرم کا پیروکار نہیں تھا۔ ان میں سے ایک بدھ مت سے تعلق رکھنے والا، دوسرا مسلمان اور تیسرا مسیحی تھا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔