مہاجرین اپنا میزبان ملک خود چنیں؟ ’انہیں یہ حق حاصل نہیں‘
22 اپریل 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر سیارٹو نے یہ بات آج جمعہ بائیس اپریل کے روز لیٹویا میں منعقد ہونے والے یورپی یونین کے گیارہ ممالک کے اجلاس میں شرکت کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
جرمنی نے اس سال اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟
مہاجرین کے بحران سے سب سے متاثر ہونے والے گیارہ یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس آج لیٹویا کے شہر یورمالا میں منعقد ہوا۔ گزشتہ برس کے آغاز سے اب تک گیارہ لاکھ سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن یورپ پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے اگرچہ زیادہ تر مشرق وسطیٰ کے بحران زدہ علاقوں سے ہجرت کر کے یورپ پہنچے ہیں تاہم ایشیا اور افریقی ممالک سے معاشی ضروریات کے تحت یورپ کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد بھی ان میں شامل ہے۔
ہنگری کے وزیر خارجہ نے معاشی بنیادوں پر ہجرت کرنے والوں پر تو شدید تنقید کی تاہم انہوں نے بحران زدہ علاقوں سے بھاگ کر آنے والے مہاجرین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ سیارٹو کا کہنا تھا، ’’معاف کیجیے لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ جو شخص چھ یا سات محفوظ ممالک سے گزرتا ہوا اپنی مرضی کے ملک میں پہنچتا ہے، اسے واقعی مہاجر کہا جا سکتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’زندگی کا تحفظ بنیادی حق ہے لیکن پناہ حاصل کرنے کے لیے اپنی مرضی کے ملک کا انتخاب کرنا بنیادی انسانی حقوق میں شامل نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ان تارکین وطن نے نہ صرف ہمارے ملکی قوانین کو توڑا ہے بلکہ انہوں نے یورپی قوانین کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘
گزشتہ برس جب مہاجرین کا بحران شروع ہوا تو چار لاکھ سے زائد مہاجرین و تارکین وطن ہنگری کی حدود سے گزرتے ہوئے جرمنی اور دیگر شمالی یورپی ممالک تک پہنچے تھے۔ بعد ازاں ہنگری میں برسراقتدار دائیں بازو کی حکومت نے تارکین وطن کے لیے اپنی ملکی سرحدیں خاردار تاریں لگا کر بند کر دی تھیں۔
بوڈاپسٹ حکومت یورپی یونین میں کوٹے کے تحت مہاجرین کی لازمی تقسیم کے منصوبے کے بھی خلاف ہے اور ہنگری نے اس یونین کے اس فیصلے کے خلاف یورپی عدالت انصاف میں قانونی چارہ جوئی بھی شروع کر رکھی ہے۔
علاوہ ازیں ہنگری میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے خلاف سرحدی خلاف ورزی کے سخت قوانین بھی نافذ کیے گئے ہیں۔ ان قوانین کے تحت اب تک بائیس سو سے زائد غیر ملکیوں کو جبری ملک بدری کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔