مہاجرین میں مقبول ہوتا نیا روٹ، ناروے براستہ روس
12 نومبر 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ اب مہاجرین روس کا سفر کرتے ہوئے ناروے میں داخل ہونے کی کوششیں بھی کرنے لگے ہیں۔ اس نئی پیش رفت پر اوسلو حکومت نے برہمی کا اظہار بھی کیا ہے۔ ناروے اگرچہ یورپی یونین کی رکن ریاست نہیں ہے لیکن وہ یورپ کے آزاد سفری معاہدے شینگن کا حصہ ہے۔ مہاجرین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ روس کے ذریعے ناروے پہنچ جائیں، جہاں سے ان کے لیے یورپ کے دیگر ممالک میں داخلے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔
رواں برس کے دوران تقریباﹰ چار ہزار پناہ کے متلاشی افراد اس خطرناک راستے کو عبور کرتے ہوئے روس سے ہمسایہ ملک ناروے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس کے اعداد و شمار کے مطابق صرف دس افراد ہی اس راستے کے ذریعے ناروے پہنچ پائے تھے۔ مہاجرین کے موجودہ بحران کے تناظر میں ناروے سے تعلق رکھنے والے مبصرین اور میڈیا میں یہ آراء پائی جا رہی ہیں کہ ماسکو حکومت ایسے مہاجرین اور تارکین وطن کو مشکل اور دشوار گزار راستوں سے گزرنے کی اجازت دے کر دراصل ہمسایہ ملک ناروے کو عدم استحکام کا شکار بنانا چاہتی ہے۔
ایک مقامی آن لائن اخبار کے مدیر اعلیٰ تھامس نیلسن نے اے ایف پی سے گفتگو میں روس کے اس اقدام کو ’جارحیت‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ماسکو حکومت کے اعلیٰ ایوانوں میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے، جس سے روس اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یا تو روس ناروے میں تقسیم پیدا کرنا چاہتا ہے یا پھر یوکرائنی تنازعے پر پورپی پابندیوں کی حمایت کرنے پر ناروے کو سزا دینا چاہتا ہے۔
دیگر علاقوں یا سمندری راستوں سے یورپ داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کے مقابلے میں روس کے راستے ناروے داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد انتہائی کم ہے۔ تاہم پھر بھی یہ معاملہ اوسلو اور ماسکو کے مابین سفارتی تناؤ کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ روس اور فن لینڈ کی مشترکہ سرحد کافی طویل ہے لیکن ابھی تک روس سے فن لینڈ میں مہاجرین کی داخلے کی کوئی خبریں موصول نہیں ہوئیں۔ فن لینڈ یورپی یونین کا رکن ملک ہے لیکن وہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا ممبر نہیں ہے۔ اوسلو کے مطابق ماسکو سے استفسار کے باوجود اس حوالے سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا کہ مہاجرین روس کے راستے فن لینڈ کے بجائے ناروے میں کیوں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
ناروے نے ابھی تک روس کے ساتھ متصل اپنی سرحدی گزرگاہوں کو بند کرنے کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ ناقدین کے بقول اوسلو کی طرف سے ایسی کوئی بھی کوشش طاقتور روس کو ناراض کر سکتی ہے۔ تاہم ناروے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش میں ہے۔
روس کے راستے ناروے داخل ہونے والے پاکستانی باشندے رحمان نے بدھ کے دن اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں روس کے راستے ناروے پہنچا ہوں۔ میرے لیے یہ ایک آسان راستہ تھا۔‘‘ منفی سات ڈگری سینٹی گریڈ میں کانپتے ہوئے چونتیس سالہ رحمان نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے گرم کپڑوں کی درخواست بھی کی۔
ناروے کا کہنا ہے کہ انتہائی شمال میں واقع روس سے ملحقہ ملکی علاقوں میں پناہ گزینوں کے لیے بنیادی انتظامات کرنا ایک مشکل کام ہے۔ تاہم ساتھ ہی اوسلو حکام نے موسم سرما کی آمد کے تناظر میں ان علاقوں میں کچھ عارضی پناہ گاہوں کا انتظام کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ اوسلو نے کہا ہے کہ ناروے میں داخل ہونے والے ایسے افراد کو واپس روس بھیج دیا جائے گا، جن کے پاس روس میں رہنے کی لیے جائز سفری دستاویزات ہوں گی۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا روس ان مہاجرین کو واپس لے گا یا نہیں۔