میرکل کے فون کی ’جاسوسی‘: جرمنی کی امریکا سے جواب طلبی
28 اکتوبر 2013جرمن اخبار ڈيئر اشپيگل کی ہفتے کے روز شائع ہونے والی ايک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امريکی خفيہ ادارے سن 2002 سے جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کی جاسوسی کر رہے ہيں۔ اسی رپورٹ ميں يہ بھی لکھا ہے کہ ’اوباما نے ميرکل سے کہا کہ اگر انہيں اس بات کا علم ہوتا، تو وہ اس عمل کو رکوا ديتے۔‘
اتوار کو جرمن حکومت نے کہا تھا کہ اگر امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے چانسلر میرکل کے فون کی جرمن سر زمین پر نگرانی کا الزام درست ثابت ہو گیا تو وہ اسے ایک ’’جرم‘‘ قرار دے کر کارروائی کا آغاز کرے گی۔
اتوار کے روز جرمن وزیر داخلہ ہانس پیٹر فریڈرش نے جرمن اخبار بِلڈ آم زونٹاگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فون کی نگرانی ایک ’’مجرمانہ عمل‘‘ کے زمرے میں آتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اگر امریکیوں نے جرمنی میں موبائل فون ’ٹیپ‘ کیے ہیں تو انہوں نے جرمن سرزمین پر جرمن قانون توڑنے کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔
چانسلر ميرکل کے نائب ترجمان گیورگ اسٹريٹر نے جمعے کے روز بتايا تھا کہ جرمنی کے اعلی سرکاری اہلکاروں پر مشتمل ايک ٹيم جاسوسی سے متعلق حاليہ رپورٹوں کے حوالے سے وائٹ ہاؤس اور امريکا کی نيشنل سکيورٹی ايجنسی کے ساتھ بات چيت کے ليے جائے گی۔ بعد ازاں جرمن ميڈيا نے خفيہ ايجنسيوں کے ذرائع سے ہفتے کے روز بتايا کہ اس وفد ميں خفيہ اداروں کے اعلی اہلکار شامل ہوں گے۔
اسی تناظر ميں رواں ہفتے برسلز ميں ہونے والے يورپی يونين کے اجلاس ميں اس نتيجے پر پہنچا گيا تھا کہ انٹيليجنس سے جڑے معاملات ميں نئے ’سمجھوتے يا معاہدے‘ کی ضرورت ہے اور جرمنی اور فرانس رواں سال کے اختتام تک واشنگٹن انتظاميہ کے ساتھ ايسے کسی معاہدے کو حتمی شکل دينے کی کوشش کريں گے۔
جرمن وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ امریکا کو اس بارے میں واضح جواب دینا ہوگا کہ کہاں اور کس حد تک جرمن ریاست اور عوام کی الیکٹرونک کمیونیشکشن کی نگرانی کی گئی۔
وہ کہتے ہیں، ’’اتحادی ملک امریکا پر ہمارا اعتماد مجروح ہوا ہے۔‘‘
خیال رہے کہ جولائی کے مہینے میں اپوزیشن جماعتوں نے فریڈرش کو اس بات پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ امریکا کی جانب سے مبینہ جاسوسی کے بارے میں واشنگٹن سے کوئی جواب حاصل کیے بغیر ہی لوٹ گئے تھے۔ اس وقت وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ امریکی نیشنل سکیورٹی نے جاسوسی کے عمل کے ذریعے دنیا بھر میں پینتالیس اور جرمنی میں پانچ ممکنہ دہشت گردی کے واقعات کو روک دیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا کا یہ پروگرام دہشت گردی اور ہتھیاروں کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی پر ہی مرکوز تھا۔
واضح رہے کہ جاسوسی سے متعلق ايسے بيش تر انکشافات اور الزامات کے پيچھے نيشنل سکيورٹی ايجنسی کے سابق کانٹريکٹر ايڈورڈ سٹوڈن ہيں، جو ان دنوں روس ميں عارضی سياسی پناہ پانے کے بعد وہيں مقيم ہيں۔