میزائل شیلڈ بات چیت: روس اور نیٹو میں تعطل برقرار
8 دسمبر 2011جمعرات کے روز نیٹو کا وفد روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات کے دوران مجوزہ میزائل شیلڈ نظام کی تنصیب پر روسی خدشات کو زائل کرنے میں ناکام رہا۔ یورپ میں امریکی میزائل شیلڈ نظام کی تنصیب پرنیٹو اور روس کے درمیان ہونے والی تازہ میٹنگ بے نتیجہ رہنے پر روس اور نیٹو میں اختلافات کی خلیج وسیع ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ میٹنگ نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے درمیان برسلز میں ہوئی۔ میٹنگ کے بعد راسموسن اور لاوروف نے میڈیا سے گفتگو بھی کی۔ بات چیت میں پیش رفت نہ ہونے کی تصدیق مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ راسموسن نے بھی کردی ہے۔
اس ملاقات میں نیٹو حکام نے روس کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ نیٹو اور روس کو ایک جیسے خطرات کا سامنا ہے لیکن یہ مؤقف پیش رفت کا باعث نہ بن سکا۔ نیٹو حکام روس کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ یورپ میں نصب کیا جانے والا امریکی میزائل شیلڈ نظام بنیادی طور پر مشرق وسطیٰ سے اٹھنے والے کسی ممکنہ خطرے کے تدارک کے لیے ہے اور اس میں بھی خاص طور پر ایران کی وجہ سے خطرات نمایاں ہیں۔ سفارت کاروں کا خیال ہے کہ اس میٹنگ کا نتیجہ متوقع تھا کیونکہ ماسکو حالیہ الیکشن پر امریکی تشویش سے ناراض دکھائی دیتا ہے۔ میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے نیٹو کے سیکرٹری جنرل راسموسن نے اس روسی تنقید کو مسترد کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ نیٹو روسی خدشات کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ راسموسن کے مطابق روس کے ساتھ اس معاملے پر سیاسی ڈیل اب بھی پہنچ سے باہر نہیں ہے اور حتمی ڈیل سن 2012 میں امریکی شہر شکاگو میں ہونے والی نیٹو کی عالمی سمٹ سے قبل طے پا جائے گی۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے میڈیا کو بتایا کہ اس حساس معاملے پر ان کے گفتگو میں شریک پارٹنر تعاون کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ روس اس سلسلے میں ایک ایسے ٹریٹی کی خواہش رکھتا ہے جس میں ضمانت دی جائے کہ مجوزہ امریکی میزائل شکن نظام روس کے بیلیسٹک میزائلوں کے لیے خطرہ نہیں ہو گا۔ روس کی خواہش ہے کہ امریکہ اور اس کے یورپی حلیفوں کے لیے بھی طے پانے والے معاہدے کا احترام لازمی ہوگا۔ دوسری جانب امریکہ ایک تحریری معاہدے پر تو تیار ہے مگر اس بات پر بضد ہے کہ اس معاہدے کے تحریری ہونے کے باوجود واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے لیے اس کا احترام لازمی نہیں ہو گا۔
گزشتہ روز نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے ماسکو حکام پر زور دیا تھا کہ وہ کسی ‘ فرضی دشمن’ کے ساتھ مقابلے کے لیے ہتھیار سازی پر اپنا سرمایہ ضائع نہ کرے۔ روس کے صدر دیمیتری میدویدیف نے گزشتہ ماہ خبردار کیا تھا کہ یورپی یونین کی سرحدوں کے پاس روسی میزائل نصب کیے جائیں گے۔ تاہم راسموسن نے کا کہنا ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو ابھی بھی اس نظام کے حوالے سے تعاون کے لیے روس کے ساتھ معاہدہ چاہتا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک