نئی کشیدگی کا نتیجہ: جرمنی کا ترکی کے خلاف اقدامات کا اعلان
20 جولائی 2017جرمن دارالحکومت برلن سے جمعرات بیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق جرمن وزیر خارجہ نے آج اعلان کیا کہ جرمنی ترکی کے خلاف کئی ایسے اقدامات کرے گا، جو اس بات کا ردعمل ہوں گے کہ ترک حکام نے انسانی حقوق کے سرکردہ جرمن کارکن کو شٹوئڈنر کو حراست میں لے رکھا ہے۔
انقرہ اور برلن کے مابین کئی مختلف وجوہات کی بنا پر ماضی قریب میں بھی کافی زیادہ اختلاف رائے دیکھنے میں آیا تھا، جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ پہلے تو جرمنی نے ترکی میں چند ماہ پہلے ہونے والے ریفرنڈم سے قبل انقرہ حکومت کے ایک سے زائد وزراء کو اپنے ہاں ترک نژاد شہریوں کے سیاسی اجتماعات سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
پھر ترک صدر ایردوآن نے یہ کہہ دیا تھا کہ موجودہ جرمن حکومت ’نازی دور کے ہتھکنڈے‘ استعمال کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ جی ٹوئنٹی کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر بھی برلن حکومت نے ترک صدر کی یہ درخواست مسترد کر دی تھی کہ انہیں جرمنی میں ترک شہریوں سے خطاب کی اجازت دی جائے۔
ترکی میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی مدت حراست میں توسیع
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت، ایک سال بیت گیا
جرمنی نے ترک صدر کی درخواست مسترد کر دی
اس کے علاوہ ترکی میں کئی مہینے قبل ایک جرمن جریدے کے نامہ نگار اور ترک نژاد جرمن صحافی ڈینیز یُوچَیل کی دہشت گردی کی حمایت کے الزام میں گرفتاری بھی دونوں ملکوں کے مابین ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے، جو ابھی تک حل نہیں ہوا۔
برلن اور انقرہ کے مابین تازہ ترین سیاسی اور سفارتی بدمزگی کی وجہ ترکی میں انسانی حقوق کے جرمن کارکن شٹوئڈنر کی گرفتاری بنی۔ اس جرمن شہری کو ترکی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر اور چند دیگر افراد کے ہمراہ پولیس نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے اور ایک ترک عدالت نے اسی ہفتے ان افراد کی حراست کی مدت میں توسیع بھی کر دی تھی۔
ایک جرمن شہری سمیت ان چھ زیر حراست افراد پر ترک حکام نے ایک ایسی دہشت گرد تنظیم کی حمایت کا الزام لگایا ہے، جس کا انقرہ کی طرف سے کوئی نام بھی نہیں بتایا گیا۔
اس تناظر میں جرمن وزیر خارجہ کا جمعرات کے روز دیا جانے والا بیان دونوں ممالک کے مابین کھچاؤ میں اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جرمنی بھی، جو کہ ترکی کی طرح نیٹو کا ایک رکن ملک اور انقرہ کا اتحادی بھی ہے، اب بڑھتی ہوئی دوطرفہ کشیدگی میں اپنی طرف سے زیادہ سخت موقف کی طرف بڑھنے لگا ہے۔
’گولن سے روابط‘: ترکی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ کی گرفتاری
کئی ترک فوجی اہلکاروں، اہل خانہ کو ’جرمنی نے پناہ دے دی‘
ترک ریفرنڈم میں خامیاں تھیں، بین الاقوامی مبصرین کی رپورٹ
زیگمار گابریئل نے اس حوالے سے برلن میں کہا کہ جرمنی ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش کے بارے میں اس بلاک میں اپنے ساتھی ممالک سے بھی بات چیت کرے گا اور برلن اب اس بات کی ضمانت بھی نہیں دے سکتا کہ بڑے جرمن کاروباری ادارے ترکی میں سرمایہ کاری کریں گے۔
جرمن وزیر خارجہ نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اب ان کے لیے یہ سوچنا محال ہے کہ یورپی یونین ترکی کے ساتھ کسٹمز یونین میں توسیع سے متعلق کوئی مذاکرات کرے گی۔ اسی کے علاوہ گابریئل نے جرمن شہریوں کے نام ایک نئی تنبیہ جاری کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جرمنوں کے لیے ترکی کا سفر خطرات سے خالی نہیں ہے۔
روئٹرز کے مطابق وزیر خارجہ گابریئل نے برلن میں صحافیوں کو بتایا، ’’ہمیں ضرورت ہے کہ ترکی سے متعلق ہماری پالیسیاں اب ایک نئی سمت میں جائیں۔ اب ہم پہلے والی حکمت عملی پر عمل پیرا نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اب تک کے مقابلے میں اپنی بات زیادہ واضح طور پر کہنا ہو گی تاکہ انقرہ کے پالیسی ساز یہ سمجھ سکیں کہ ان کی موجودہ پالیسیوں کے پھر نتائج بھی نکلیں گے۔‘‘
زیگمار گابریئل نے مزید کہا کہ انہوں نے ترکی کے خلاف اقدامات کے حوالے سے جرمنی کی جن نئی پالیسیوں کا اعلان کیا ہے، ان سے سربراہ حکومت کے طور پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی پوری طرح اتفاق کر چکی ہیں۔