نئے سال کے آغاز پر ڈرون حملوں میں 15 ہلاکتیں
1 جنوری 2011جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق تازہ حملوں میں جنوبی وزیرستان کے علاقوں مندا خیل، غوڑ ی شکئی اور سپین وام کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ہفتہ کی علی الصبح کئے گئے ان حملوں کے اہداف افغان سرحد سے محض کچھ کلومیٹر کے فاصلے ہیں۔
ایک پاکستانی انٹیلی جنس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا ہے کہ ڈرون حملوں میں مقامی شدت پسند طالبان مارے گئے ہیں۔ ان کے بقول مندا خیل میں دو میزائل ایک رہائشی احاطے اور دو میزائل وہاں پہنچنے والی ایک گاڑی پر داغے گئے۔ دونوں حملوں میں 11 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
اسی طرح ایجنسی کے صدر مقام میر علی کے شمال میں واقع غوڑی شکئی میں تین میزائلوں سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ اِس حملے میں چار ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ یہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسی علاقے میں کیا گیا چوتھا ڈرون حملہ ہے۔ جمعہ کی سہ پہر کئے گئے ایک حملے میں بھی پانچ افراد مارے گئے تھے۔
واشنگٹن میں افغان جنگ کے سالانہ جائزے کے بعد سے ڈرون حملوں میں نئی شدت دیکھی جا رہی ہے۔ افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس قبائلی علاقوں میں کریک ڈاؤن کی ضرورت کو اجاگر کر چکے ہیں۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کئی مواقع پر نیٹو اور افغان نیشنل آرمی کے دستے پاکستانی قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کر چکے ہیں۔ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے، تو اس کا دائرہ اب خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے قریب تک پہنچ چکا ہے۔ گزشتہ ماہ پشاور سے سے متصل خیبر ایجنسی میں کئے گئے ڈرون حملوں میں 60 سے زائد مبینہ شدت پسند مارے گئے تھے۔
گزشتہ سال کے دوران مجموعی طور پر لگ بھگ ایک سو ڈرون حملے کئے گئے، جن میں 600 سے زائد افراد مارے گئے۔ محتاط اندازوں کے مطابق اگست 2008ء سے اب تک ڈرون حملوں میں 1270 افراد مارے جا چکے ہیں۔
پاکستانی قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف شدید عوامی اشتعال پایا جاتا ہے۔ ان حملوں میں مارے جانے والوں میں سے بیشتر کی شناخت آزاد ذرائع سے نہیں ہو پاتی۔ یہ نیم خود مختارعلاقہ انٹیلی جنس بلیک ہول کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں صحافیوں اور غیر ملکی رضا کاروں کی رسائی انتہائی محدود ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امجد علی