نائجیریا: اغواشدہ اسکولی بچے رہا
18 دسمبر 2020نائجیریا میں کاٹسینا ریاست کے گورنر امینو بیلو مساری نے سرکاری نشریاتی ادارے این ٹی اے کو بتایا کہ اغوا شدہ 344 نائجیریائی اسکولی بچوں کو جمعرات کے روز حکومتی سکیورٹی فورسز کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
مسلح حملہ آوروں نے شمال مغربی شہر کنکارا میں گورنمنٹ سائنس سیکنڈری اسکول پر گیارہ دسمبر کو جب حملہ کیا تھا تو وہاں 800 سے زیادہ طلبہ موجود تھے۔ گوکہ سینکڑوں بچے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن حملہ آوروں نے 300 سے زائد بچوں کو اغوا کرلیا تھا۔ اسلامی انتہاپسند گروپ بوکو حرام نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
گورنر مساری نے بتایا کہ تمام تو نہیں لیکن بیشتر بچوں کو پڑوسی زمفارا ریاست میں آزاد کردیا گیا ہے۔ ان کی طبی جانچ کی جائے گی اور اس کے بعد جمعے کے روز انہیں ان کے رشتہ داروں کو سونپ دیا جائے گا۔
نائجیریا کے صدر محمدو بُہاری نے ایک ٹوئٹر پیغام میں ان بچوں کی رہائی کا خیر مقدم کیا: ”یہ پورے ملک اور بین الاقوامی برادری کے لیے ایک بہت بڑی راحت ہے۔ پورا ملک گورنر مساری، انٹلیجنس ایجنسیوں، فوج اور پولیس فورس کا ممنون ہے۔"
نائجیریائی قومی روزنامے ڈیلی ٹرسٹ کے کالم نویس اور تجزیہ کار بلاما بکارتی نے مبینہ طورپر رہا کیے گئے اسکولی بچوں کی غیر مصدقہ تصویروں کے ساتھ ٹوئٹ کرکے بتایا کہ ”انہیں فوجی اور پولیس ٹرکوں میں زمفارا ریاست کے سافے سے کاٹسینا لے جایا جارہا ہے۔"
بچے کیسے آزاد کرائے گئے؟
بچوں کی رہائی انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو کے گردش کرنے کے کچھ دیر بعد عمل میں آئی۔ اس میں مبینہ طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ طلبہ بوکو حرام کے جنگجووں کے ساتھ ہیں اور سکیورٹی فورسز سے علاقے کو چھوڑ کر چلے جانے کے لیے گڑگڑا رہے ہیں۔
مقامی اخبار کاٹسینا پوسٹ نے لکھا ہے کہ حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ ہوجانے کے بعد اغوا کار بچوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔
ڈی ڈبلیو کے مغربی افریقہ کی نمائندہ فلورش چک وورا کا کہنا ہے کہ ”ہمیں جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ یہ کہ یہ پولیس اور فوج کی مشترکہ کوشش تھی اور غالباً دو دیگر سکیورٹی ایجنسیا ں بھی اغوا شدہ بچوں کی رہائی کے حوالے سے بات چیت میں شامل تھیں۔"
کیا بوکو حرام نے بچوں کا اغوا کیا تھا؟
چک وورا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بوکوحرام نے اغوا کی ذمہ داری لی تھی لیکن حکام اورحتی کہ مقامی افراد کا بھی کہنا تھا کہ بچوں کا اغوا بوکوحرام کے جنگجوؤں نے نہیں کیا ہے بلکہ یہ اس علاقے میں سرگرم ڈاکووں کی کارستانی تھی۔ یہ ڈاکو ایک عرصے سے بوکوحرام کے ساتھ ہاتھ ملانے کی کوشش کررہے ہیں اور بہت سے لوگ اسی وجہ سے انہیں بوکوحرام کا ذیلی گروپ بھی کہتے ہیں۔"
انہوں نے مزید بتایا کہ ”اس اغوا میں کس کا ہاتھ تھا، یہ بات اپنی جگہ، لیکن اہم بات یہ ہے کہ بالآخر ان بچوں کو رہائی مل گئی ہے۔"
کاسٹینا ریاست بُہاری کا آبائی علاقہ ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اسلام پسند انتہا پسندوں پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے بہاری کی قیادت پر سوالیہ نشان کھڑے ہوتے رہے ہیں۔
کیا بچوں کے اغوا کے حالیہ واقعے میں واقعی بوکو حرام کا ہاتھ تھا؟
حکومت کے بعض حلقے اب بھی اس سے انکار کررہے ہیں، لیکن اگر اس اغوا میں اس انتہاپسند تنظیم کا واقعی ہاتھ تھا تو یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ اس گروپ نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ نائجیریا کے شمال مشرق تک وسیع کرلیا ہے۔
گورنر مساری نے نشریاتی ادارے این ٹی اے کو مزید بتایا کہ حکومت مستقبل میں اغوا کے اس طرح کے افسوس ناک واقعے کو روکنے کے لیے اسکولوں کی حفاظت کی خاطر پولیس اور پرائیوٹ سکیورٹی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی)