ناگویا ماحولیاتی کانفرنس میں کچھ اچھے فیصلے
2 نومبر 2010مندوبین نے ایک ایسے سمجھوتے کی منظوری دی، جس میں حیاتیاتی وسائل پر تصرف اور اُن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا معاملہ طے کیا گیا ہے۔ اِس سمجھوتے کو ناگویا پروٹوکول کا نام دیا گیا ہے۔ گویا متعلقہ ملکوں کا یہ حق باقاعدہ تحریری طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ وہی اپنے حیاتیاتی اور جینیاتی وسائل کے اصل مالک ہیں۔
واضح رہے کہ ادویات یا علاج معالجے کے روایتی طریقوں میں زیادہ تر استعمال ہونے والے مادے ترقی پذیر ملکوں یا پھر ترقی کی دہلیز پر کھڑے ملکوں سے آتے ہیں۔ آئندہ اگر کوئی ملک اِن وسائل کو استعمال کرنا چاہے گا تو پہلے اُسے اُس ملک کی رضامندی حاصل کرنا ہو گی اور ممکنہ طور پر منافع میں حصہ دار بنانا ہو گا، جو اِن وسائل کا اصل مالک ہو گا۔
اِس کے ساتھ ساتھ ہر ملک کو اپنے ہاں ایک طرح کا ’چَیک پوائنٹ‘ بھی قائم کرنا ہو گا۔ تحفظ ماحول کی علمبردار تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف سے وابستہ گنٹر مِٹلاخر کے مطابق:’’یہاں اِس بات پر اتفاقِ رائے ہوا ہے اور اِن مذاکرات کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ اِن وسائل کو استعمال کرنے والے ممالک مثلاً جرمنی میں ایک طرح کا ’چَیک پوائنٹ‘ ہوا کرے گا، جس سے سبھی لوگ رجوع کر سکتے ہیں، مثلاً جب بھی حیاتیاتی اور جینیاتی وسائل کی چوری کا کوئی معاملہ درپیش ہو۔‘‘
نوآبادیاتی دور میں حیاتیاتی وسائل کی چوری کی تلافی کے لئے بھی ایک فنڈ قائم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے، جس کی مدد سے اُن وسائل کے اصل مالک ملکوں میں مختلف منصوبوں کے لئے مالی وسائل فراہم کئے جائیں گے۔
اِس کانفرنس میں ایسے مخصوص زونز یا علاقوں کی شرح بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا، جہاں مختلف جانداروں اور نباتات کو خصوصی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ طے کیا گیا کہ سن 2020ء تک ہماری اِس دھرتی پر خشکی کا سترہ فیصد اور سمندروں کا دَس فیصد علاقہ ایسے زون قائم کرنے کے لئے مخصوص کیا جائے گا۔ تحفظ ماحول کی جرمن تنظیم BUND سے وابستہ پروفیسر ہُوبرٹ وائیگر نے کہا:’’کوئی ایک بھی سرکاری نمائندہ ایسا نہیں تھا، جس نے اِس بات سے اختلاف کیا ہو کہ حیاتیاتی تنوع کو بچانے کی ضرورت ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اِس معاملے پر پوری دُنیا کے درمیان اتفاقِ رائے تھا۔‘‘
اِس کانفرنس میں حیاتیاتی تنوع کو بچانے کے منصوبوں کے لئے مالی وسائل کی فراہمی پر بھی غور کیا گیا۔ کانفرنس کے میزبان جاپان نے اِس سلسلے میں ا یک اچھی مثال قائم کی اور ترقی پذیر اور ترقی کی دہلیز پر کھڑے ملکوں میں تحفظ انواع کے منصوبوں کے لئے اگلے تین برس کے عرصے میں دو ارب ڈالر فراہم کرنے کی پیشکش کی۔
اِس حوالے سے جرمن پروفیسر ہُوبرٹ وائیگر کا کہنا تھا:’’ہماری اپیل اب دیگر ملکوں سے ہے کہ وہ جاپان کی مثال کی پیروی کریں۔ دُنیا بھر میں حیاتیاتی تنوع کو بچانے کے منصوبوں کے لئے ہمیں سالانہ کم از کم بیس ارب یورو کی ضرورت ہے۔ یقیناً یہ بہت بڑی رقوم ہیں لیکن یہ رقوم اُن رقوم کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہیں، جو پوری دُنیا میں ہر سال سرکاری اعانت کے نام پر ایسے شعبوں کو فراہم کی جاتی ہیں، جو ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘
رپورٹ: پیٹر کویاتھ / امجد علی
ادارت: عاطف بلوچ