1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نریندر مودی: مارگریٹ تھیچر کے نظریاتی جانشین

شامل شمس6 اپریل 2014

بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے امیدوار مودی نے اب تک اپنی اقتصادی پالیسوں کا اعلان نہیں کیا تاہم انہیں ابھی سے ماضی کی قدامت پسند برطانوی وزیر اعظم تھیچر کا جانشین قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Bcrg
Internationales Drachenfestival 2013 Ahmedabad
تصویر: UNI

سات اپریل سے شروع ہونے والے بھارتی پارلیمانی انتخابات میں ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں۔ بے جی پی کے رہنما اور گجرات کے موجودہ وزیر اعلیٰ نریندر مودی بھارت میں ایک انتہائی متنازعہ شخص ہیں تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہونے کے خاصے قریب ہیں۔ گجرات میں سن دو ہزار دو میں ہوئے ہندو مسلم فسادات اور ایک ہزار کے قریب مسلمانوں کے قتل کا الزام اس وقت بھی ریاست کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز مودی پر عائد کیا جاتا ہے۔ اس الزام کو مودی اور ان کے حامی ہمیشہ رد کرتے رہے ہیں۔ ان فسادات نے مودی کی شہرت پر داغ ضرور لگا دیا ہے۔ تاہم حالیہ چند برسوں کے دوران مودی ایک ایسے سیاست دان کے طور پر بھی شہرت حاصل کر چکے ہیں جس نے اپنی ریاست کی معاشی ترقی کو مثالی بنا دیا ہے۔

جب گزشتہ برس آٹھ اپریل کو نریندر مودی نے اپنی ایک تقریر میں نج کاری اور ’چھوٹی حکومت‘ کے فوائد گنوائے تو ان کے حامیوں نے انہیں سابق برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کا نظریاتی جانشین قرار دے دیا تھا۔ اس تقابل کے بارے میں لندن میں مقیم بینکر اور مودی کے حامی دیپک کانتھ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’’اگر تھیچر ازم سے مراد ’کم حکومتی یا کم حکومتی اخراجات‘ اور آزاد سرمایہ داری لے رہے ہیں تو پھر ’مودی نامکس‘ اور تھیچر ازم میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘

کانتھ کے بقول وہ اقتصادیات کے حوالے سے دائیں بازو کے نظریات کے حامل ہیں اور ان ہزاروں کارکنوں میں سے ہیں جو برطانیہ میں بی جے پی کی انتخابی مہم کے لیے چندہ اکھٹا کر رہے ہیں۔ مودی کے ان حامیوں میں مالیاتی اداروں گولڈمین زاکس اور جے پی مورگن جیسے اداروں سے وابستہ بھارتی شہری بھی شامل ہیں۔

روئٹرز کے مطابق مودی کے قریبی ساتھیوں میں ایسے مؤقر معیشت دان اور صنعت کار شامل ہیں جو چاہتے ہیں کہ مودی اور بی جے پی ہندوستان کے سوشلسٹ ماضی سے چھٹکارا حاصل کریں، فلاحی مد میں رکھی جانے والی رقم میں کٹوتی کریں اور کاروباری معاملات میں حکومت کا کردار کم سے کم کریں۔ واضح رہے کہ ’آئرن لیڈی‘ یا ’فولادی خاتون‘ کا خطاب پانے والی آنجہانی برطانوی وزیر اعظم تھیچر کا اقتصادی نظریہ بھی کچھ یہی تھا۔ اسّی کی دہائی میں ان کا دور حکومت برطانیہ میں بچتی پروگراموں کے آغاز اور ٹریڈ یونینوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا دور بھی قرار دیا جاتا ہے۔

معروف بھارتی مصنفہ اور انسانی حقوق کی کارکن ارون دتی روئے نے حال ہی میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ملکی اور غیر ملکی کارپوریٹ ادارے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید