نریندر مودی کی پالیسیوں کا کڑا امتحان، اترپردیش کا الیکشن
11 فروری 2017بھارتی ریاست اتر پردیش کی آبادی بیس کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے جب کہ 140 ملین سے زائد لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ ریاست میں آج ہفتہ گیارہ فروری کے روز صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ اترپردیش کی صوبائی اسمبلی میں نشتوں کی مجموعی تعداد 404 ہے اور پہلے مرحلے میں 70 نشتوں کے لیے ووٹنگ ہو رہی ہے۔
یہ انتخابات مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے سب سے اہم انتخابات قرار دیے جا رہے ہیں۔ اتر پردیش کے انتخابات وزیر اعظم مودی کی اب تک کی کارکردگی کے تناظر میں ریفرنڈم جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارت میں آئندہ عام انتخابات 2019ء میں ہونے ہیں۔ مودی کی سیاسی جماعت بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کے لیے موجودہ ریاستی انتخابات آئندہ عام انتخابات سے قبل ’سیمی فائنل‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔
بھارتی ایوان زیریں (لوک سبھا) میں کُل 543 نشتیں ہیں جن میں سے 80 اراکین کا انتخاب صرف اس ایک بھارتی ریاست یعنی اترپردیش سے ہوتا ہے۔ 2014ء کے عام انتخابات کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس ریاست سے لوک سبھا کی 71 نشتیں جیتی تھیں۔
ان انتخابات کی اہمیت کے پیش نظر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے صوبے میں جاری انتخابی مہم میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ مہم کے دوران مودی نے اب تک کی اپنی کارکردگی عوام کے سامنے رکھی اور صوبائی انتخابات کو بی جے پی کی ’کرپشن کے خلاف جنگ‘ کے ضمن میں اہم قرار دیا۔ ایک انتخابی مہم کے دوران مودی نے آئندہ عام انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’جب 2019ء آئے گا تو مودی سب سے پہلے اپنی حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھے گا۔‘‘
اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے اور پارٹی کے نوجوان سربراہ اور صوبائی وزیر اعلیٰ اکھِلیش یادیو اس مرتبہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کر کے ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
یادیو اور کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی خود کو ’نوجوانوں کے نمائندے‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ جب کہ چھیاسٹھ سالہ ہندو قوم پرست وزیر اعظم مودی خود کو ’غریب طبقے کے ترجمان‘ کے طور پر اپنا تشخص عوام کے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب سابق صوبائی وزیر اعلیٰ اور بھوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی دلت کمیونٹی کی نمائندگی کر رہی ہیں۔
سماج وادی پارٹی اگرچہ سوشلسٹ نظریات والی سیاسی جماعت ہے لیکن اس کے حامیوں کی اکثریت کسانوں پر مشتمل ہے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی اٹھارہ فیصد ہے۔ کانگریس اور سماج وادی پارٹی کا اتحاد مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
نئی دہلی کے سینٹر فار سٹڈی آف ڈیویلپنگ سوسائٹیز سے وابستہ سنجے کمار کا کہنا ہے کہ ’’اگر بی جے پی یہ انتخابات ہار جاتی ہے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ مرکزی سیاسی جماعتیں صوبائی سطح کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر آئندہ انتخابات کے دوران بھی بی جے پی کو شکست دے سکتی ہیں۔