نواز شريف پاک بھارت تعلقات ميں بہتری کے ليے کوشاں
8 اگست 2013جمعرات کو دفتر خارجہ میں ایک اعلی سطحی بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور اعتماد کی بحالی پر بات چیت ممکن ہے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ پاکستان اور بھارت کے ليے ضروری ہے کہ وہ ایل او سی پر فائر بندی کو بحال رکھنے کے ليے مؤثر اقدامات کریں۔
سرکاری بیان کے مطابق اس بریفنگ میں وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز، خارجہ امور کے ليے معاون طارق فاطمی اور وزیر اطلاعات پرویز رشید کے علاوہ وزارت خارجہ کے حکام نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے وزیر اعظم کو پاک بھارت جامع مذاکرات اور پاک بھارت سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات کے بارے میں آگاہ کیا۔
پاکستانی وزیر اعظم کو یہ بریفنگ ایک ایسے موقع پر دی گئی ہے جب بھارتی وزیر دفاع اے کے انٹونی نے اسی ہفتے منگل کے روز جموں میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعے میں پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار پاکستانی فوج کو ٹھہرایا تھا۔ بھارتی وزیر دفاع نے جمعرات کو پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں پاکستانی فوج کے خصوصی دستوں نے حصہ لیا تھا۔
بھارتی وزیر دفاع کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس واقعے کا اثر دونوں ممالک کے تعلقات پر پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے صبر کا غلط مطلب نہیں لیا جانا چاہیے۔ اے کے انٹونی کے بقول اس واقعے میں ملوث افراد کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کے مطابق بھارتی وزیر دفاع کا یہ بیان بظاہر اس اندرونی سیاسی دباؤ کی عکاسی کرتا ہے جو وہاں اس وقت انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے ڈالا جا رہا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نےکہا، ’’ان کی ساری چیزیں متضاد ہیں۔ ان کو مذاکرات کی بالکل ضرورت نہیں ہے اور پتہ نہیں ہمارے لوگوں کو اس کی کیا ضرورت ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جس ڈائیلاگ کا مقصد آپ کو تباہ کرنا یا آپ کو دیوار سے لگانا ہو، وہ ایک سازش ہے اور اس پر معزرت خواہانہ رویے اپنانے کے بجائے وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنا مؤقف بھر پور طریقے سے پيش کرنا چاہیے کہ ہمیں کب تک کونے پر لگا کر رکھا جائےگا۔‘‘
بھارتی وزیر دفاع کی جانب سے دونوں ممالک کے تعلقات پر ایل او سی کے واقعے پر ’مضمرات‘ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر ريٹائرڈ شوکت قادر نے دوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاک بھارت تعلقات کی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اگر بھارت اس واقعے پر احتجاج کرتا ہے، جو ایک بین لاقوامی طریقہ ہے، تو پھر اس کشیدگی میں اضافے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن اگر انہوں نے کوئی جوابی کارروائی کی تو پھر کشیدگی بڑھے گی۔ میں یہی کہوں گا کہ امن کے ليے امید کی جو کرن تھی، وہ کچھ کم ہوئی ہے۔‘‘
خیال رہے کہ بھارت نے 26 نومبر 2008ء کو ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات معطل کر دیے تھے۔ اس کے تین سال بعد2011 میں دوبارہ شروع ہونے والے جامع مذاکرات کے دو ادوار منعقد ہوچکے ہیں جن میں ویزا پالیسی پر توجہ دی گئی۔ اب پاکستانی دفتر خارجہ نے دو اگست کو بھارت کو جامع مذاکرات کے لئے تاریخیں تجویزکی تھیں۔
تاہم دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی سے جامع مذاکرات کی بحالی میں ایک بار پھر تاخیر کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔