نواز شریف کا میڈیا بلیک آؤٹ، الزام ججوں اور جرنیلوں پر
21 اپریل 2018جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اپنے ایک تفصیلی مضمون میں کہا ہے کہ نوازشریف کا میڈیا بلیک آؤٹ دراصل ان کا ملکی فوج کی پالیسیوں پر اختلاف ہے۔
پاکستانی سیاست: نواز شریف کی تاعمر نااہلی کے بعد ہو گا کیا؟
مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک بار پھر ڈیل کی خبریں
ڈی پی اے کے مطابق رواں ہفتے جب سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سیمنار سے خطاب کر رہے تھے، تو ان کا یہ خطاب تمام ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کیا جا رہا تھا، بالکل ویسے ہی، جیسے دیگر رہنماؤں کا کیا جاتا ہے، مگر جیسے ہی نواز شریف نے اپنی برطرفی کے موضوع پر بات کی، تمام ٹی وی چینلز نے اچانک ہی سے یہ خطاب نشر کرنا بند کر دیا۔
نوازشریف کو گزشتہ برس جولائی میں سپریم کورٹ نے بدعنوانی کے ایک مقدمے کے تحت نااہل قرار دیتے ہوئے پارلیمان کی رکنیت اور وزارت عظمیٰ سے محروم کر دیا تھا۔ اسی تناظر میں وہ ملکی عدلیہ اور فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ملتے ہیں۔
ڈی پی اے کے مطابق یہ پہلا موقع تھا کہ ایک ساتھ تمام نشریاتی اداروں کی جانب سے اس طرح نوازشریف کے خطاب کے کچھ حصوں کو نشر کرنے سے روکا گیا، جو اس بابت سینسر شپ کا پتا دیتا ہے۔
ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی وحید مراد نے اپنے ایک نجی بلاگ میں کہا، ’’یہ ایک بدترین قسم کی سینسرشپ ہے، جس کا کوئی جواز نہیں۔‘‘
مراد کا مزید کہنا تھا، ’’ایسا لگتا ہے جیسے فوج اور عدلیہ مل کر انتخابات سے قبل میڈیا کو مکمل طور پر قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
اس سے قبل صحافیوں کی جانب سے پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے نجی ٹی وی چینل جیو کی بندش کے تناظر میں بھی کہا گیا تھا کہ اس بندش کی وجہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی تقاریر نشر کرنا تھی۔ ڈی پی اے کے مطابق پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف جیو ایک مضبوط آواز کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔
ڈی پی اے نے مبصرین کے حوالے سے کہا ہے کہ نوازشریف فوج اور ججوں کا مشترکہ ہدف اس لیے بنے، کیوں کہ انہوں نے اقتدار پر سویلین بالادستی کی کوشش کی، جب کہ پاکستانی تاریخ کو قریب نصف عرصہ ملکی اقتدار فوج کے قبضے میں رہا ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق نواز شریف اس وقت بھی ملک کے مقبول ترین سیاست دان ہیں، جہاں ان کے سیاسی جلسوں میں لاکھوں افراد شریک ہو رہے ہیں اور ان جلسوں میں وہ سیاست میں فوجی مداخلت پر بار بار تنقید کرتے ہیں۔
اس سے قبل ایک صوبائی عدالت نے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ نوازشریف اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں بہ شمول موجودہ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کی ایسی تقاریر نشر نہ کریں، جن میں ’قومی اداروں‘ پر تنقید کی جائے۔ ڈی پی اے کے مطابق پاکستان میں قومی اداروں کی اصطلاح فوج اور عدلیہ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
اس عدالتی حکم نامے کو ٹی وی مبصرین اور ماہرین نے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دستور کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا تھا۔ پاکستانی دستور ہر فرد کو آزادی اظہار رائے کی ضمانت دیتا ہے۔ بعد میں تاہم سپریم کورٹ نے ماتحت عدالت کے اس فیصلے پر ازخود نوٹس دیتے ہوئے کہا تھا کہ فیصلے کی نادرست تشریح کی گئی ہے۔
دوسری جانب جیو ٹی وی کی بندش سے متعلق ڈی پی اے نے دو کیبل آپریٹروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہیں مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی (انٹر سروسز انٹیلیجنس) کے اہلکاروں کی جانب سے ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں، جن میں انہیں جیو ٹی وی کو نشر کرنے سے روکا گیا۔ ایک کیبل آپریٹر نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’انہوں نے ہمیں دھمکیاں دیں اور کہا کہ جیو کو بند کر دو ورنہ تمہیں نتائج بھگتنا ہوں گے۔‘‘
واضح رہے کہ جیو ٹی وی پر اس بندش سے متعلق پاکستانی میڈیا پر وزیرداخلہ احسن اقبال نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ میڈیا ریگولیٹری کے ملکی ادارے نے بھی اس بابت کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔
ع ت / ع ب