نواز شریف کو سزا، پاکستان اسٹاک ایکسچینج بھی لڑکھڑا گیا
10 جولائی 2018سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سزا سنائے جانے کے بعد کی صورتحال سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ چھ جولائی کو سارا دن اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس اتار چڑھاؤ کا شکار رہا تھا اور فیصلے سے پہلے انڈیکس منفی زون میں تھا۔ فیصلہ چونکہ کاروبار کے اختتام سے چند منٹوں پہلے آیا تھا، اس لیے مارکیٹ پر اس کا ردعمل فوری طور پر ظاہر نہ ہو سکا اور ٹریڈنگ سیشن ختم ہو گیا۔
نئے کاروباری ہفتے کے آغاز پر پہلے ہی روز اسٹاک مارکیٹ نے زبردست ردعمل ظاہر کیا، جس کے نتیجے میں کاروبار کے دوران ہنڈریڈ انڈیکس میں 12 سو سولہ پوائنٹس کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس سیشن کے اختتام پر ہنڈریڈ انڈیکس 9 سو 95 پوائنٹس کمی کے بعد 39 ہزار 2 سو 88 پوائنٹس پر بند ہوا۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر عابد علی حبیب نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ مارکیٹ کا ردعمل فطری ہے،’’سابق وزیر اعظم کو دس سال قید کی سزا ہوئی ہے۔ نواز شریف نے رواں ہفتے پاکستان واپس آنے کا بھی اعلان کیا ہے مگر سرمایہ کار آنے والی صورتحال سے سخت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
عابد علی کے مطابق سرمایہ کار سمجھتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کی گرفتاری کے نتیجے میں ملک میں امن و امان کی فضا خراب ہو سکتی ہے، ’’اسی لیے سرمایہ کار اپنے حصص فروخت کر کے مارکیٹ سے نکل رہے ہیں۔‘‘
حصص بازار کے معروف بروکر عارف حبیب کہتے ہیں کہ کافی عرصے سے بازار میں ہیجانی کیفیت موجود ہے، ’’سرمایہ کاروں میں گھبراہٹ ہے کہ نہ جانے کیا ہونے والا ہے۔ عام انتخابات بھی قریب ہیں۔ الیکشن تک مارکیٹ ایسی ہی کارکردگی کی توقع کی جا رہی ہے۔ صورتحال انتخابات کے بعد ہی بہتر ہو سکے گی۔‘‘
ادھر اسٹاک مارکیٹ میں روز کی بنیاد پر کام کرنے والے بروکر محمد شعیب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مارکیٹ کا والیوم بہت کم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس اسکرپ کی قیمت چند روز پہلے 65 روپے تھی، آج وہ 20 سے 25 روپے پر آ گئی ہے، ’’مارکیٹ میں پیسہ نہیں آرہا، تمام اسکرپس کی قیمتیں نیچے آ گئی ہیں۔ یہ وقت شیئرز بیچنے کا نہیں بلکہ پیسہ انویسٹ کرنے کا ہے۔ بہت مناسب وقت ہے کہ نئے سرمایہ کار مارکیٹ میں آئیں اور حصص خریدیں، کیونکہ مارکیٹ گر رہی ہے لیکن کچھ عرصہ بعد اوپر جائے گی، جس سے شیئرز کی قیمت کافی بڑھ جائے گی۔‘‘
گزشتہ برس جولائی میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد بھی بازار حصص میں اٹھارہ سو پوائنٹس کی بدترین مندی دیکھی گئی تھی، لیکن انڈیکس جلد ہی سنبھل گیا تھا۔
معروف اقتصادی تجزیہ کار ایم اسلم کی رائے ہے کہ حکومتی انسٹی ٹیوشنز بھی اس وقت مارکیٹ میں دلچسپی نہیں لے رہے، ’’ماضی میں جب بھی اسٹاک مارکیٹ مندی کی لپیٹ میں آئی، تو ان انسٹی ٹیوشنز نے حصص خرید کر مارکیٹ کو سہارا دیا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہورہا۔ بہت محدود پیمانے پر کاروبار تو ہو رہا ہے، لیکن اس قدر نہیں کہ اسے اطمینان بخش کہا جا سکے۔‘‘
معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق اسٹاک ایکسچینج کی مسلسل کارکردگی کے پیش نظرخیال کیا جا رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں مارکیٹ میں نمایاں طور پر بہتری آنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ اس کی وجوہات بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں اور امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوسکتی ہیں۔ ساتھ ہی رواں ماہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے پیش کی جانے والی مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں متوقع اضافہ بھی مارکیٹ کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔