نواز شریف کی نااہلی کے بعد مستقبل کا پارٹی منظر، مشاورت جاری
29 جولائی 2017پاکستانی سپریم کورٹ کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے کی خبرکے چوبیس گھنٹے بعد بھی نون لیگ کے متوالے بے یقینی اور صدمے کی حالت میں ہیں۔ اس خبر کو سن کر تشویشناک حالت میں ہسپتال پہنچائے جانے والے مقامی ایم پی اے وحید گل کی حالت اب بہتر بتائی جا رہی ہے۔
اگرچہ لاہورکے علاوہ گوجرانوالہ، ملتان اور فیصل آباد سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں نواز شریف کی نا اہلی کے عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے لیکن ابھی تک پنجاب کے کسی بھی حصے میں کوئی بڑا احتجاجی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ لاہور شہر میں جہاں قومی اسمبلی کی 13 میں سے 12 نشستیں مسلم لیگ نون کے پاس ہیں، ان احتجاجی سرگرمیوں سے عام آدمی ابھی تک بڑی حد تک لاتعلق ہی دکھائی دے رہا ہے۔
پاناما سے اقامہ تک، نواز شریف کا احتساب: تبصرہ
نا اہلی کے بعد: نواز شریف کے پاس قانونی اور سیاسی آپشنز کیا ہیں؟
مبصرین کے مطابق جو لوگ نواز شریف کی برطرفی کے بعد ترکی جیسی صورتحال کی توقع کر رہے تھے، انہیں کافی مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بڑے احتجاجی مظاہروں کی عدم موجودگی کے باوجود آج کئی اخبارات میں نواز شریف کی حمایت میں اشتہارات شائع کرائے گئے، جن میں نواز شریف کی بڑی تصویر کے ساتھ یہ نعرہ درج تھا: ’میاں دے نعرے وجن گے‘۔
اسی دوران پاکستان کی قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے ارکان اسمبلی کی فہرست سے میاں نواز شریف کا نام بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ سرکاری دفاتر سے بھی نواز شریف کی تصاویر ہٹائی جا رہی ہیں۔ ادھر رائے ونڈ کے علاقے جاتی امراء میں نواز شریف کی رہائش گاہ سے وزیر اعظم ہاؤس کا اسٹیٹس واپس لے کر وزیر اعظم کا کیمپ آفس ختم کر دیا گیا ہے۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود تین ہزار کے قریب پولیس اہلکاروں کی تعداد میں بھی کمی کی جا رہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت کے خاندانی ذرائع کے حوالے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پارٹی کے سینئیر رہنما اور شریف خاندان کے ’بڑے‘ اس وقت سر جوڑے مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلوں کے لیے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ نئے وزیر اعظم کا حتمی فیصلہ ہفتے کی شام اسلام آباد میں ہونے والے مسلم لیگ نون کی پارلیمانی پارٹی کے ایک اجلاس میں کیا جائے گا، تاہم پاکستانی میڈیا میں نئے وزیر اعظم کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا نام لیا جا رہا ہے۔ میاں شہباز شریف کے نام پر اتفاق ہو جانے کی صورت میں انہیں نواز شریف کی خالی ہو جانے والی لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 سے الیکشن لڑوایا جائے گا۔ اس دوران 45 روز کے لیے جن ارکان اسمبلی میں سے ممکنہ طور پر نئے وزیر اعظم کا انتخاب کیا جا سکتا ہے، ان میں رانا تنویر، ایاز صادق، احسن اقبال، خواجہ آصف، عبدالقادر بلوچ اور احسن اقبال جیسے رہنماؤں کے نام شامل ہیں۔
نواز شریف نا اہل، ملک میں سیاسی ہلچل
پاکستانی سياست ايک نئے موڑ پر، اب کيا کيا ہو سکتا ہے؟
مسلم لیگ نون کے قریبی حلقوں کے مطابق پارٹی کے رہنماؤں کے لیے تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس فیصلے کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف مہیا کرنے کی بات شروع کر دی ہے۔ اگر اس ضمن میں کوئی پیش رفت ہوئی، تو پھر نئے ممکنہ وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے پی ایم ایل این نواز شریف کی نا اہلی کے بعد تمام دستیاب قانونی امکانات پر غور کے لیے بھی اپنی مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہو گا کہ میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کی صورت میں پنجاب میں نیا وزیر اعلیٰ کون ہو گا؟ مسلم لیگ نون کے حلقوں میں اس وقت رانا ثناء اللہ، ندیم کامران، میاں حمزہ شہباز اور میاں مجتبیٰ کے نام لیے جا رہے ہیں۔
ادھر نواز شریف کی خالی ہونے والی نشست این اے 120 کے لیے سیاسی سرگرمیاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق پارٹی کی ابتدائی مشاورت میں وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی کے بعد خالی ہونے والی اس نشست پر پی ٹی آئی کی خاتون رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کو الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پارٹی ذرائع کے بقول پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ اس نشست پر متحدہ اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار سامنے آئے۔ اس سلسلے میں سیاسی رابطے بھی شروع کر دیے گئے ہیں۔
نواز شريف کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دے دیا
دریں اثناء لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پیر اکتیس جولائی کو یوم تشکر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد کرپشن کے خلاف ملک گیر مہم چلانے والی جماعت اسلامی آج ’یوم عزم‘ منا رہی ہے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں سینیئر سیاستدان جاوید ہاشمی کا وہ بیان بھی بڑی دلچسپی سے پڑھا جا رہا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ انہیں تحریک انصاف سے وابستگی کے دنوں میں بہت پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ نواز شریف کو عدالتی عمل کے ذریعے ہٹا دیا جائے گا۔
آج لاہور سے شائع ہونے والے متعدد قومی اخبارات نے وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی پر اداریے بھی لکھے۔ ایک انگریزی اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ جمہوریت کا مستقبل ایک فرد کے سیاسی مستقبل سے زیادہ اہم ہے۔ اس اخبار کے مطابق اداروں کے باہمی اختلافات اور قانونی جنگوں کے باوجود جمہوری قوتوں کو راستہ نکالنے کا موقع ملنا چاہیے اور جمہوری عمل پٹری سے نہیں اترنا چاہیے۔
سینیئر تجزیہ کار خالد رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موجودہ صورتحال نے پاکستان کے سیاسی نظام میں ’عدم بلوغت‘ کی تصدیق کر دی ہے۔ ان کے بقول اس صورت حال میں مختلف ریاستی اداروں کا ٹکراؤ بھی سامنے آ گیا ہے اور یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان میں نواز شریف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے موقف یکساں تو بالکل نہیں تھے۔
انہوں نھے کہا، ’’سویلین بالا دستی کے حوالے سے پاکستان ایک مرتبہ پھر کئی دہائیاں پیچھے چلا گیا ہے۔ صرف اس ایک عدالتی فیصلے سے پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے ملک میں تسلسل کے ساتھ اصلاحات اور بہت مؤثر لیکن دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘