نواز شریف کی وطن واپسی اور انہیں درپیش چیلنجز
8 جولائی 2016پاکستانی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف نو جولائی ہفتے کے روز واپس وطن لوٹ رہے ہیں تاہم ان کی جماعت مسلم لیگ نون کے ذرائع کوئی حتمی تاریخ بتانے سے گریزاں ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں اور خود وزیر اعظم کی اپنی جماعت کے بھی کئی افراد کا خیال ہے کہ پاکستان واپسی پر نواز شریف کو کئی چیلنجوں کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔
ملک کی قوم پرست سیاسی جماعتیں اس بات پر وزیر اعظم سے خفا ہیں کہ چین کے ساتھ منصوبے ’سی پیک‘ (CPEC) کا مغربی روٹ ان کی خواہشات کے مطابق نہیں بنایا جا رہا۔ حزب اختلاف کی جماعتیں ’ٹرمز آف ریفرنس‘ پر اتفاق رائے نہ ہونے پر سیخ پا ہیں اور آئندہ دنوں میں نون لیگ کی حکومت کے خلاف بھر پور احتجاج کا پروگرام بنا رہی ہیں۔
اس کے علاوہ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمانہ رویہ رکھنے والے نواز شریف کو ایک بار پھر نئے آرمی چیف کا انتخاب کرنا ہے۔ مزید یہ کہ ایران، بھارت، امریکا اور افغانستان سے تعلقات بھی حالیہ مہنیوں میں ناخوشگوار ہی رہے ہیں۔ ان حالات میں مسلم لیگ نون کو بھی احساس ہے کہ اس کے لیے آنے والے دن سیاسی مسائل سے بھرے ہوئے ہوں گے۔
مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما راجہ ظفرالحق نے ان مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نواز شریف کو ان تمام مسائل اور چیلنجوں کا ادراک ہے۔ لیکن یہ مسائل صرف وزیر اعظم ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ہیں۔ کچھ قوتیں نہیں چاہتیں کہ ’سی پیک‘ پروجیکٹ مکمل ہو۔ وہ چین کی طرف سے اتنی بڑی سرمایہ کاری کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ یہی قوتیں ملک کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں، جن سے ملک اور جمہوریت دونوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
حزب اختلاف کی طرف سے آئندہ کیے جانے والے احتجاج پر راجہ ظفرالحق نے کہا، ’’انہیں اندازہ نہیں کہ ان کا یہ احتجاج جمہوریت کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بارہا یقین دلایا گیا ہے کہ جمہوریت کی حمایت کی جائے گی اور اس نے اب تک جمہوریت کی حمایت کی بھی ہے۔ لیکن جب سیاستدان خود ہی اس طرح کے احتجاج کی پالیسی اپنائیں گے، تو پھر فوج کیا کر سکتی ہے؟ عالمی قوتیں جمہوریت کی حمایت کا یقین دلاتی ہیں لیکن آپ ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں راجہ ظفرالحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نئے آرمی چیف کا تقرر کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کے لیے قواعد موجود ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے لیے یہ کوئی مشکل فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ اسی انٹرویو میں راجہ ظفرالحق نے تاہم یہ انکشاف بھی کیا کہ ایک ایسی صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے، جہاں کسی ایک فرد واحد کے لیے نہیں بلکہ تمام سروسز چیفس کے عہدوں کی میعاد میں توسیع کر دی جائے۔
انہی چیلنجوں پر بات کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے کہا، ’’سب سے پہلا چیلنج نواز شریف کے لیے سول ملٹری تعلقات کا ہو گا۔ پھر نئے آرمی چیف کی تقرری بھی ایک چیلنج ہوگا۔ اس کے علاوہ حزب اختلاف کا احتجاج، پاناما لیکس اور پڑوسی ممالک سے تعلقات، یہ سب وہ مسائل ہیں، جن کا نواز شریف کو سامنا کرنا ہو گا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ نے کہا، ’’نئے آرمی چیف کی تقرری کے مسئلے کو نواز شریف حل کر لیں گے کیونکہ وہ سب سے زیادہ تجربے کار سیاست دان ہیں۔ تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہیں۔ اس مسئلے کو بڑی دانائی اور تدبر سے حل کرنا ہوگا۔ آنے والے دنوں میں اگر جمہوریت کو کوئی خطرہ ہوتا ہے، تو اس کے حل کے لیے بھی سیاسی دور اندیشی سے کام لینا ہوگا۔‘‘
اس بارے میں پاکستانی سینیٹ کے رکن عثمان کاکڑ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’جمہوریت میں مظاہرے اور احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر اس احتجاج کے پیچھے انٹیلیجنس ایجنسیاں ہوں، تو پھر مشکل ہو سکتی ہے۔ میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اس بار مارشل لاء لگایا گیا، تو پھر ملک تباہی کے راستے پر چل پڑے گا۔ نواز شریف کو چاہیے کہ وہ چھوٹے صوبوں کے عوام کی شکایات کا ازالہ کریں۔ ’سی پیک‘ کا مغربی روڈ بنائیں، سینیٹ کو بااختیار کریں، اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کے نصف ارکان پارلیمانی ایوان بالا سے لیے جائیں۔‘‘