نواز شریف کے بیٹوں کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
2 اکتوبر 2017جس وقت پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کے ساتھ ایلیٹ پولیس کے حصار میں عدالت پہنچے تو اس وقت اسلام آباد کی فضاء میں ایک ہیلی کاپٹر گشت کر رہا تھا اور نواز شریف کے حامی کارکن ان کے حق میں نعرے بلند کر رہے تھے۔ جس وقت سابق وزیراعظم احتساب کی عدالت میں پیش ہوئے تو سکیورٹی اہلکاروں نے میڈیا کے ساتھ ساتھ کئی وکلاء اور وزیر داخلہ احسن اقبال کو بھی کورٹ میں داخل ہونے سے روک دیا۔
اس حوالے سے وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ رینجرز نے چیف کمشنر کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور عدالت کی سکیورٹی رینجرز نے سنبھال لی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ میرے ماتحت ادارے کہیں اور سے احکامات لیں۔‘‘انہوں نے مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا، ’’یہ کوئی بنانا ری پبلک نہیں بلکہ جمہوری ملک ہے۔‘‘
اسحاق ڈار پر بدعنوانی کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی گئی
وزیر داخلہ کا غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ایک ریاست کے اندر دو ریاستیں نہیں چل سکتیں، یہاں ایک قانون ہوگا، ایک حکومت ہوگی، میں کٹھ پتلی وزیر داخلہ نہیں بن سکتا۔‘‘
جولائی میں پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد احتساب عدالت نے سابق پاکستانی وزیراعظم کے خلاف بیرون ملک آف شور کمپنیوں، العزیزیہ اسٹیل مل اور لندن فلیٹس کے حوالے سے ریفرنسز دائر کیے تھے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امکان ہے کہ نواز شریف کو کرپشن کے الزامات میں قصور وار قرار دے دیا جائے گا، جس کے ساتھ انہیں سزائے قید بھی سنائی جا سکتی ہے۔
اسلام آباد کی احتساب کی عدالت میں آج حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف تین نیب ریفرنسوں کی سماعت ہونا تھی لیکن وہ پیش نہیں ہوئے ہیں، جس کے بعد حسن نواز، حسین نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ پیشی پر حاضر نہ ہونے کی وجہ سے ان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔ مریم نواز کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔
ان کے وکلاء نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ آئندہ پیشی پر عدالت میں حاضر ہوں گے۔
سابق وزیراعظم گزشتہ ہفتے بھی احتساب عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ اس سے پہلے وہ لندن میں تھے اور خصوصی طور پر وہاں سے ان مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان پہنچے تھے۔