حکومت مخالف محاذ: کیا نون لیگ واقعی سنجیدہ ہے؟
20 اگست 2020سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کو کی جانے والی ٹیلی فون کال کے بعد ملک میں ایک بار پھر حکومت مخالف محاذ کی خبریں گرم ہیں لیکن کئی ناقدین یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ کیا نون لیگ واقعی کوئی حکومت مخالف محاذ بنائے گی یا پھر یہ کوئی چال ہے۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کو کچھ دن قبل کال کی تھی، جس میں جے یو آئی ایف کے سربراہ نے نون لیگ کے ماضی کے رویے پر شکوے شکایات کیے تھے۔ جے یو آئی ایف کے ذرائع کے مطابق نواز شریف نے ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی بات کی اور حکومت کے خلاف ایک نیا محاذ بنانے کے لیے مولانا سے بات چیت بھی کی ہے اور اس پر اپنی حمایت کا بھی یقین دلایا ہے۔
لیکن حزب اختلاف کی جماعتیں میاں صاحب کی اس یقین دہانی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کے ذہن میں نون لیگ کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں۔ ماضی میں نون لیگ کی قریبی اتحادی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا کہنا ہے کہ نون لیگ کبھی بھی حکومت مخالف اور اسٹیبلشمنٹ مخالف رویہ نہیں اپنائے گی۔ پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نون لیگ اس حکومت کے خلاف کسی محاذ کا متحرک حصہ بنے کیونکہ اس حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور نون لیگ کبھی بھی ان کے خلاف نہیں جائے گی۔ خود میاں نواز شریف اور مریم صاحبہ کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی بیان نہیں آیا تو باقی پارٹی کیا ان کے خلاف بولے گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب نون لیگ کو حکومت کی طرف سے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو اس کو حزب اختلاف یاد آجاتی ہے: ''ابھی مریم کو نیب کا نوٹس ملا یا نون لیگ کو ذرا سی سختی کا سامنا کرنا پڑا تو یہ فوراﹰ حزب اختلاف کے پاس آجاتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ حکومت کے سہولت کار بھی بنتے ہیں اور ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ خود نون لیگ کے لوگ بھی پارٹی کی پالیسی سے پریشان ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان میں یہ ایک عام تاثر ہے کہ شہباز شریف عسکری قیادت کے بہت قریب ہیں اور نون لیگ سخت گیر اور معتدل رویہ رکھنے والے گروپوں میں تقسیم ہے۔ شہباز معتدل گروپ کے قائد ہیں جب کہ نواز شریف اور مریم نوازکو سخت گیر گروپ کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ نون لیگ کے کئی سیاسی اتحادی شہباز کی مصلحت پسندی سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ماضی میں نون لیگ کے بلوچستان اور مرکز میں اتحادی رہنے والی نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ شہباز کی موجودگی میں نون لیگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کبھی نہیں جائے گی۔ پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''میرے خیال میں میاں صاحب کی یہ پیشکش حکومت پر دباؤ ڈالنے کی ایک چال ہے یا وہ اپنے اسٹیبلشمنٹ مخالف ووٹرز کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نون لیگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کبھی نہیں جا سکتی اور نہ ہی حکومت مخالف محاذ میں سنجیدگی کے ساتھ حصہ لے گی کیونکہ وہ دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں جو جی ایچ کیو کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ اسٹیبلشمنٹ کو حکومت مخالف محاذ میں جا کر ناراض نہیں کریں گے۔‘‘
جے یو آئی ایف کی طویل خاموشی: اسٹیبلشمنٹ کا خوف یا پھر سیاسی مایوسی؟
آرمی ایکٹ بل کی حمایت: کیا سودے بازی کا نتیجہ ہے؟
گزشتہ دوبرسوں میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف کئی بارتحریکیں چلانے کی باتیں ہوئیں لیکن وہ تحریکیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ جے یوآئی ایف نے پہلے ہی دن سے حکومت کی مخالفت کی اور ملک کے طول و عرض پر عمران خان کے خلاف جلسے کیے اور جلوس نکالے اور پھر گزشتہ برس آزادی مارچ بھی کیا، جس کا مقصد حکومت کا خاتمہ تھا۔ فضل الرحمان کی پارٹی کا شکوہ ہے کہ نون لیگ اور پی پی پی نے ان کے مارچ کو دباؤ کے طور پر استعمال کر کے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت سے رعایتیں لیں۔ پارٹی کے ترجمان اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد کا کہنا ہے ماضی کے تجربات کی روشنی میں میاں صاحب کی یقین دہانی پر ہمارے لوگوں کے شکوک و شہبات ہیں: ''نون لیگ نے آزادی مارچ میں بھرپور شرکت نہیں کی حالانکہ بھرپور شرکت کی یقین دہانی خود نواز شریف نے کرائی تھی اور کیپٹن صفدر کو ہمارے پاس بھیجا تھا۔ ابھی حال ہی میں قانون سازی پر بھی نون لیگ اور دوسری حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کے گھر پر اجلاس میں شرکت کر کی اور جے یوآئی ایف کو بائی پاس کیا۔ تو ان تجربات کی روشنی میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس یقین دہانی پر عمل ہوگا یا نہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ نون لیگ کو عملی طور پر ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ واقعی حکومت مخالف محاذ چاہتی ہے اور اس میں سرگرمی سے شرکت بھی کرنا چاہتی ہے: ''عوام میں یہ تاثر ہے کہ نواز شریف سخت لائن لیتے ہیں اور شہباز اسٹیبلشمنٹ نواز لائن لیتے ہیں اور یہ سب کچھ ایک حکمت عملی کے تحت کیا جاتا ہے۔ نون لیگ کو اس تاثر کو توڑنا ہوگا اور ہم امید کرتے ہیں کہ اب نون لیگ کے قائد کی یقین دہانی پر عمل ہوگا اور پارٹی حقیقی معنوں میں اپوزیشن کرے گی۔‘‘
مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیر ماحولیات مشاہد اللہ خان ان سارے الزام کو مسترد کرتے ہیں: ''فضل الرحمان صاحب نے ہم سے پوچھ کر آزادی مارچ شروع نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی ہم سے ان حالات میں جہاں تک اس مارچ کی حمایت ہو سکتی تھی ہم نے کی۔ تو ہم سے شکوے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ جہاں تک ہم پر تنقید کا تعلق ہے تو نون لیگ کے قائدین کی فیملی نے جمہوریت کے لیے جتنی قربانی دی ہے وہ کسی نے بھی نہیں دی۔ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم جیل گئے۔ حمزہ ایک سال سے قید ہیں۔ تو ہم پر تنقید اس حوالے سے بے جا ہے۔‘‘
مشاہداللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ اگر نواز شریف کا حکم ہے کہ حکومت کے خلاف متحدہ محاذ بنے تو وہ بالکل بنے گا: ''میاں صاحب نے کہا ہے تو شہباز شریف اور ہماری پارٹی کے دوسرے قائدین جے یو آئی ایف کے سربراہ فضل الرحمان صاحب سے ضرور ملاقات کریں گے اور پھر بعد میں یہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اجلاس میں فیصلہ ہوگا کہ اس حکومت کو کیسے ہٹایا جائے۔ یقیناﹰ یہ کام مرحلہ وار ہوگا اور تمام جماعتوں کی مشاورت سے ہوگا۔‘‘
پی پی پی نے بھی جے یو آئی ایف کے اعتراضات کو مسترد کیا ہے۔ تاہم پارٹی کے رہنما سردار لطیف کھوسہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ نون لیگ کو حقیقی اپوزیشن کا کردار اداکرنا چاہیے: ''لوگوں میں کنفیوژن ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں متحد کیوں نہیں ہو رہیں۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو لوگ خود سڑکوں پر نکل کر پچاس لاکھ نوکریوں، ایک کروڑ گھروں، مہنگائی، پیٹرول، گیس اور دوائیوں کے اسیکنڈلز کے بارے میں حکومت کا گھیراؤ کری گے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جے یو آئی ایف کا پی پی پی سے کوئی شکوہ نہیں بنتا: ''ہم نے پہلے ہی دن مولانا فضل الرحمان پر یہ واضح کر دیا تھا کہ ہم دھرنوں کے ذریعے حکومتوں کو گرانے کے قائل نہیں ہیں۔ ہم نے مارچ کا ساتھ دیا اور اس میں شرکت بھی کی لیکن دھرنے کی کبھی حمایت نہیں کی۔‘‘