نیوزی لینڈ: حکومتی کیئر ہومز میں لاکھوں بچوں کا استحصال
16 دسمبر 2020بچو ں کے استحصال کی چھان بین کرنے والی نیوزی لینڈ کی رائل کمیشن آف انکوائری نے اپنی عبوری رپورٹ میں کہا ہے کہ سن 1950سے سن 2019 کے دوران دو لاکھ 56 ہزار افراد کا استحصال کیا گیا۔ یہ تعداد دیکھ بھال کے سرکاری اور مذہبی مراکز میں اس دوران رہنے والے لگ بھگ چھ لاکھ 55 ہزار افراد کا تقریباً 40 فیصد بنتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کیئر ہومز میں رہنے والے لوگوں کی تعداد حکومت کے سابقہ اندازوں سے تقریباً چھ گنا زیادہ ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ استحصال کی ایک مخصوص شکل 'نظرانداز‘ کیے جانے والے افراد کی تعداد کو اس تحقیق میں شامل نہیں کیا گیا تھا لیکن اگر اسے بھی شامل کیا جاتا تو استحصال کا شکار ہونے والوں کی تعداد 'بہت زیادہ‘ ہوتی۔
رائل کمیشن آف انکوائری کے چیئرمین کورل شا نے ایک بیان میں کہا ”انتہائی افسوس کی بات ہے، کیئر ہومز میں استحصال کا شکار ہونے والوں کی تعداد انتہائی محتاط اندازوں کے مطابق بھی سابقہ اندازے سے زیادہ ہے۔"
’سیاہ باب‘
وزیر اعظم جسینڈا آرڈن نے ملکی تاریخ کے اس 'سیاہ باب‘ کا پتہ لگانے کے لیے سن 2018 میں رائل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا بعد میں انہوں نے گرجا گھروں اور دیگر مذہبی اداروں کو بھی اس جانچ کے دائرے میں شامل کردیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی اداروں میں بچوں اور نوعمر افراد کے استحصال کی شرح 21 فیصد سے 42 فیصد تک ہوسکتی ہے۔اور یہ ہر لحاظ سے ایک سنگین اور دیرینہ سماجی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔"
عوامی خدمات کے وزیر کرس ہیپکنس کا کہنا تھا کہ ”سرکاری کیئر ہومز میں تمام بچوں کو ہر طرح کے نقصان سے محفوظ ہونا چاہیے تھا لیکن جو شواہد سامنے آئے ہیں ان سے معاملہ بالکل اس کے برعکس نظر آتا ہے۔"
بھیانک تفصیلات
اس عبوری رپورٹ کی تیاری سے قبل عوامی اور سرکاری سماعتیں ہوئیں۔ جہاں متاثرین نے استحصال کی انتہائی بھیانک تفصیلات بیان کیں جبکہ ماہرین، وکلاء اور سرکاری حکام نے بھی اپنے اپنے تجربات بیان کیے۔
کیتھ وافن نامی ایک متاثرہ شخص، جنہیں دس برس کی عمر میں سرکاری کیئر ہوم بھیجا گیا تھا، نے نیوزی لینڈ ہیرالڈ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں استحصال کا شکار ہونے والوں کی جو تعداد بتائی گئی ہے وہ 'حقیقتاً دماغ کو جھنجھوڑ دینے والی ہے بالخصوص جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ اس دور میں ملک کی آبادی تین ملین سے زیادہ نہیں تھی۔"
وافن کا کہناتھا، ”میں یہ سب جان کرصدمے میں ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی بھی یہی حالت ہوگی۔"
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی موری نسل کے بچے غالباً سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ سرکاری کیئر ہومز میں موری بچوں کی تعدا د 69 فیصد ہے جب کہ81 فیصد موری بچے استحصال کا شکار ہوئے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس ہزاروں موری افراد نے پورے نیوزی لینڈ میں مظاہرے کیے تھے اور بچوں کو ان کے رشتہ داروں سے الگ کرکے سرکاری دیکھ بھال کے مراکز میں بھیجنے کی روایت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ بچوں کو سرکاری دیکھ بھال کے مراکز میں بھیجنے کی روایت دراصل موری باشندوں کے خلاف نسلی تفریق پر مبنی ہے جس کی جڑیں نوآبادیاتی دور سے جُڑی ہوئی ہیں۔
ج ا / ک م (روئٹرز)