وہ دن ہمارے خاندان پر سکتے کا دن تھا۔ خاموشی ایسی تھی گویا سوئی کی آواز بھی با آسانی سنی جا سکتی تھی۔ جانتے سب تھے کہ یہ خاموشی کسی طوفان ہی کا پیش خیمہ ہے۔ ہم سب (صنف نازک) کمرے میں ڈر کے مارے درودھ شریف پڑھ رہی تھیں کہ بلا ٹل جائے ،سوائے آنٹی راشدہ کے۔ وہ اسی اعتماد سے بیٹھی فیصلے کی یا شائد اپنے دفاع کی منتظر تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ہمارے راجپوت خاندان کی کسی خاتون نے الیکشن لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ گو مرد حضرات اسی میدان میں سالوں سے اپنے جھنڈے گارٹھ رہے تھے مگر اپنے گھر کی عورت کو کبھی اس میدان میں اتارنا نہیں چاہتے تھے۔ جانتے تھے کہ اس سفر میں عزت کمانے کے مواقع کم ہی ہاتھ آتے ہیں۔ جدوجہد طویل تھی، مگر آنٹی راشدہ گھر کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی جیت گئیں۔ مگر بہت جلد انہیں اپنی بدترین غلطی کا ادراک ہوا اور وہ واپس گھر کی چاردیواری میں پلٹ آئیں۔
وہ فاطمہ جناح تھوڑی تھیں کہ ڈٹی رہتیں۔ سیاست کو شطرنج کے مہروں کی طرح کھیلا جاتا ہے اور بدقسمتی سے عورت کو ناقص العقل کا تمغہ پہنا کر شطرنج کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی دور کیا جاتا رہا ہے۔ ہاں مگر جس نے بھی قدم جمانے کی جستجو کی اس کی کردارکشی کچھ ایسے ہوئی کہ اخلاقیات اور تہذیب کے جنازے نکلے۔
فاطمہ جناح جب ایوب خان کے مقابل سیاسی میدان میں اتریں تو جیت کی تمنا میں دھت ایوب خان نے ابتدا تو قائد اعظم کی روح کے تڑپنے سے کی مگر انتہا انہیں غدار وطن اور انڈین ایجینٹ کہہ کر کی۔ ایوب خان نے فاطمہ جناح کو ''نسوانیت اور ممتا‘‘ سے عاری قرار دیا۔
پاکستانی سیاست میں عورتوں کی نمائندگی ویسے ہی بہت کم ہے اور اس میدان میں قدم رکھنے والی خواتین کو معاشر ہ اپنے لیے آسان حدف سمجھتا ہے۔ فردوس عاشق اعوان کے لیے مردانہ وجاہت کے نشتر ہوں یا مریم اونگزیب کے جسم اور چہرے کے خدوخال پر لکھے گئے جملے، کہنے والوں کے لیے یہ باہمت خواتین سراسر ہنسی مذاق اور ٹھٹھہ بن چکی ہیں۔
سوشل میڈیا نے اس کھیل کو مزید سہولت اور دوام بخشا ہے۔ بدقسمتی سے ہر سیاسی جماعت زبان و تہذیب سے مکمل عاری ہو کر سیاسی میدان میں با عمل عورت کے لیے اپنی نگاہوں پر عدسے لگا کر جسم، لباس، میک اپ اور آواز تک پر جملے کسنا، سیاسی حریف کے طور پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم پاکستان رہنے کے باوجود ایسی بدترین کیمپینز کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ ان کی عزت و وقار کو ہیلی کاپٹر سے گرائی گئی چند تصاویر کے ذریعے عوام کے سامنے مجروح کرنے کی کوشش تک کی گئی۔ صرف اس لیے کہ سیاست بھی مرد ہی کی جاگیر ٹھہری۔
مریم نواز پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کی نائب صدر ہیں مگر ان پر بھی پلاسٹک سرجری، پسند کی شادی اور کپڑوں سے جوتوں تک ہر پہلو پر تنقیدی نشتر بغیر کسی لحاظ اور تہذیب کے برسائے جاتے ہیں۔ خواتین کے لیے اتنی نفرت اور معتصبانہ رویہ ہی خواتین کو سیاسی میدان میں آنے سے ر وکتا ہے۔ بدقسمتی سے ایسی تمام تر تحریکوں پر کسی سیا سی رہنما کی جانب سے معذرت اور کارکنوں کو روکنے کا بیان بھی سامنے نہیں آیا۔
صنفی بنیادوں پر چلائی جانے والی ان تحریکوں کا سامنا سیاست میں قدم رکھنے والی ہر خاتون کو کرنا پڑا اور اب تک کر رہی ہیں۔ کسی وزارت تک پہنچنے والی خاتون کو بھی اس کی اہلیت پر جانچنے کی بجائے یہ کہنا سہل ہے کہ ''کسی کی منظور نظر ہو گی تبھی۔‘‘
عمران خان کی زوجہ مسلسل اسی تحریک کی زد میں رہیں۔اس کے باوجود کہ وہ زمانے کے بنائے ضابطوں کے مطابق باپردہ رہتے ہوئے کبھی سامنے نہیں آئیں مگر صحافیوں اور سیاسی حریفوں نے عمران خان پر دباؤ ڈالنے کے لیے نا صرف ان کی زوجہ کی کردارکشی کرنے کی غرض سے سوشل میڈیا کیمپینز چلائیں بلکہ صحافیوں نے بھی خوب جم کر ان کے خلاف لکھا اور ان کی پہلی شادی کو موضوع سخن بنائے رکھا۔ فرح خان جو سابق خاتون اول کی دیرنہ دوست تھیں، انہیں اس دوستی کا قرض بھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بغیر ثبوت کے الزامات کی صورت اتارنا پڑا۔
وقت گزرنے کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے علاوہ بھی خواتین باقاعدہ جیت کر اسمبلی میں موجود ہیں مگر عورتوں اور بچوں کے حوالے سے وزارتیں اب بھی مرد حضرات کے پاس ہیں۔ خواتین پر لگا یہ الزام کہ یہ صنف نازک ہیں اس لیے انہیں بس مخصوص وزارتیں ہی دینی چاہیں۔ مگر ساتھ ہی زدوکوب کر کے مزید محدود کرنے کی روایت اب تک ختم نہیں کی جا سکی۔
سیاست کھیل نہیں بلکہ عوام کو سہولیات پہنچانے کا اور قانون سازی کا ذریعہ ہے۔ جہاں خواتین کی کردارکشی کے حوالے سے سخت قانون سازی کی اشد ضرورت ہے تاکہ صوبائی اور ضلعی سطح پر بھی عورت کو باعزت طریقے سے قانون سازی اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے میدان میں لایا جا سکے۔ صنف نازک کے خلاف سیاسی کردار کشی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔