’وکی لیکس‘ کے انکشافات پر جرمن رہنماؤں کا رد عمل
27 جولائی 2010’وکی لیکس‘ کی جاری کردہ دستاویزات سے اُن متنازعہ آپریشنز کا بھی پتہ چلتا ہے، جن کے تحت طالبان کی قیادت کو ختم کرنے کے لئے خصوصی یونٹس سرگرمِ عمل ہیں، جن میں امریکی ٹاسک فورس 373 پیش پیش ہے۔
جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سُو گٹن برگ نے جرمن ٹیلی وژن زیڈ ڈی ایف کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں اِس ٹاسک فورس کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا:’’سچی بات تو یہ ہے کہ ٹاسک فورس تھری سیون تھری کی موجودگی کوئی راز نہیں ہے۔ اِس شعبے کی خصوصی مہارت رکھنے والے صحافی بھی برسوں سے اِس حقیقت سے واقف ہیں۔ اور یہ بھی سب کو معلوم تھا کہ اِس خصوصی یونٹ کی کچھ مخصوص ذمہ داریاں ہیں۔ وفاقی جرمن فوج ایک مخصوص دائرے کے اندر رہ کر کام کرتی ہے اور جہاں تک ٹاسک فورس تھری سیون تھری کا تعلق ہے، ہم جرمن پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتوں کو باقاعدگی سے تمام تر تفصیلات سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔‘‘
جرمن ہفت روزہ جریدے ’ڈیئر شپیگل‘ کے مطابق طالبان کو قتل کرنے پر مامور اِن تین سو امریکی فوجیوں کا خصوصی یونٹ مزارِ شریف میں جرمن فوج کے کیمپ میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ جرمن گرین پارٹی کی خاتون سربراہ کلاؤڈیا روتھ نے اِس حوالے سے جرمن حکومت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا: ’’اگر یہ دستاویزات واقعی سچ ثابت ہوتی ہیں کہ امریکی دَستے جارحانہ فوجی کارروائی کو ترجیح دے رہے ہیں، جس میں طالبان کو تاک کر نشانہ بنانے اور اُن کا تعاقب کر کے اُنہیں ہلاک کرنے کی حکمتِ عملی بھی شامل ہے تو پھر میرے لئے یہ بات ناقابلِ فہم ہے۔ اِس میں مجھے فوجی پہلوؤں کی بجائے غیر فوجی پہلوؤں کو ترجیح دینے کی نئی حکمتِ عملی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔‘‘
اِس سوال کے جواب میں کہ آیا ’وکی لیکس‘ کے انکشافات سے جرمن سلامتی کو بھی کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، جرمن وزیر دفاع سُو گٹن برگ کا کہنا تھا کہ اِسی بات کو وزارتِ دفاع میں جانچا جا رہا ہے اور یہ کہ بانوے ہزار صفحات کی جانچ میں یقیناً کچھ وقت لگے گا۔
اِس سے پہلے جرمن وزارتِ دفاع کے ترجمان کرسٹیان ڈِینسٹ نے انٹرنیٹ پر اِن خفیہ دستاویزات کی اشاعت پر محتاط ردعمل ظاہر کرتے ہوئےکہا تھا کہ اب تک سامنے آنے والی معلومات میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ ترجمان نے کہا کہ وزارتِ دفاع اِن بے شمار دستاویزات کو جانچ رہی ہے:’’سرِدست ہمیں یہی سوچ کر آگے بڑھنا چاہئے کہ ہمارے سلامتی کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں، بعد میں ہم دیکھیں گے کہ کن مفادات پر زَد پڑ رہی ہے، تبھی مزید اقدامات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جہاں تک افغانستان میں ہمارے آپریشن کا تعلق ہے، ہم نے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔‘‘
جرمن وزارتِ دفاع کے ترجمان نے زور دے کر کہا کہ اِس طرح کے تمام خفیہ آپریشنز سے متعلق جرمن پارلیمان کو تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔