يورو زون کے بحران کے حل کی چند تجاويز
17 نومبر 2011يورو کرنسی زون کے ممالک ميں رياستی قرضوں اور نجی مالی بحران کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس سب معاملے کا آغاز يورپ کے جنوبی کنارے اور آئر لينڈ ميں بينکوں سے بہت زيادہ ليے جانے والے قرضوں کے ساتھ ہوا تھا۔ ماہر اقتصاديات اور جرمن حکومت کے اقتصادی مشير کليمينس فيوسٹ نے کہا، ’بينکوں نے بہت فراخدلی سے اور کسی احتياط کے بغير قرضے ديے۔ اس کے علاوہ بينکوں کا اپنا سرمايہ بہت تھوڑا تھا‘۔
اس ليے فيوسٹ کا کہنا ہے کہ مالياتی نظام ميں بنيادی نوعيت کی اصلاحات کو مرکزی اہميت دی جانا چاہيے۔ اس سلسلے ميں سوئٹزرلينڈ کے عالمی توازن ادائيگی کے بينک ’بازل تين‘ نے اصلاحات کا ايک پيکج تيار کيا ہے، جس ميں بينکوں کے اپنے سرمايے ميں اضافے کو سب سے زيادہ اہميت دی گئی ہے۔
رياستی بونڈز بہت پر خطر سرمايہ کاری سمجھے جاتے ہيں۔ بينکوں کو ان کی خريد کے ليے کسی قسم کی ضمانت دينے کی ضرورت نہيں ہوتی۔ اس وجہ سے بھی رياستی قرضوں ميں بہت زيادہ اضافہ ہوتا رہا۔ متاثرہ ممالک کو ان قرضوں کی ادائيگی کے ليے برآمدات ميں اضافہ کرنا اور توازن ادائيگی ميں منافع کمانا ہوتا ہے۔ اس کے ليے مقروض ممالک کو تجارتی مقابلے کی صلاحيت ميں اضافے کی ضرورت ہے۔ ان ملکوں ميں اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا ہو گا۔
ماہراقتصاديات فيوسٹ کے مطابق رياستی قرضوں سے بچنے يا انہيں بہت کم رکھنے ہی سے ان مشکلات سے بچا جا سکتا ہے، جن ميں آج يورپ، امريکہ اور دنيا کے دوسرے علاقوں کے ممالک بھی گھرے ہوئے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرضوں کو ايک حد سے نہ بڑھنے دينے کو ايک ضابطے کے طورپرملکی آئين ميں درج ہونا چاہيے۔ ليکن اسے عوام اور سياست کی حقيقی حمايت حاصل ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اگر جنوبی يورپی ممالک نے اسے جرمنی سے درآمدہ تجويز سمجھا تو وہ اسے دل سے قبول نہيں کريں گے۔
رپورٹ: جانگ دان ہونگ / شہاب احمد صديقی
ادارت: عاطف بلوچ