ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ختم کر دی، دہشت گردی میں اضافےکا خدشہ
29 نومبر 2022کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکومت کے ساتھ فائر بندی کا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے عسکری ونگ پر زور دیا ہےکہ جہاں بھی حملہ کرنے کا موقع ملے سرکاری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا جائے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے کے مطابق اس کے جنگجوؤں نے امن کی خاطر صبر کیا لیکن انہیں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی وجہ سے سیز فائر ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا ۔ اس دہشت گرد گروہ کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے، جب پاکستان کی وزیرمملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کی سربراہی میں ایک سرکاری وفد افغانستان میں اعلیٰ حکام کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور معیشت کی بہتری سمیت قیام امن اور دیگر اُمور پر بات چیت کے لیے کابلمیں ہے۔ حنا ربانی کھر کے دورہ کابل کے نتائج سامنے آنے کے بعد وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی ممکنہ طور پر کابل کا دورہ کریں گے ۔
پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملے
ادھر کالعدم تحریک طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ ٹی ٹی پی کے زیادہ تر حملوں میں پولیس اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں ماہ کے دوران ٹی ٹی پی نے سولہ حملے کئے جبکہ اسی ماہ لکی مروت اور ضلع باجوڑ میں ہونےوالے حملوں میں آٹھ سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ ٹی ٹی پی کا موقف ہے کہ یہ حملے جوابی کاروائی اور حفاظتی اقدامات کے طور پر کئے گئے تھے ۔ مجموعی طور پر ستمبر سے اب تک ایک سو ساٹھ سے زیادہ حملوں میں پولیس کے ایک سو پانچ اہلکاربھی ہلاک ہوئے۔
وسط ایشا اور افغانستان کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار شیراز پراچہ کا کہنا ہے، ''سیز فائر کے خاتمے کا اعلان ایک طرح سے دباؤ ہے اگر سیاسی لوگ اور بالخصوص عوام سڑکوں پر نکل آئیں، جس طرح حال ہی میں سوات، دیر ، بونیراور قبائلی اضلاع کے ہزاروں لوگ امن کے قیام کا مطالبہ لیکر سڑکوں پر نکل آئے تو یہ اتحاد امن کے قیام میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔‘‘
افغان طالبان کی سفارتی مدد
شیراز پراچہ کے بقول وزیر مملکت حنا ربانی کھر کا دورہ کابل کا وقت بھی اہم ہے۔اس دورے کی کامیابی کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا دورہ بھی متوقع ہے تو اس طرح پاکستان طالبان کے لیے عالمی اداروں اور دیگر ممالک کے ساتھ روابط استوار کرنے کیلئے ایک پل کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ طالبان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو امن چاہتے ہیں اور بین الاقوامی دنیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے کہا، ''اگر بلاول بھٹو عالمی طاقتوں کو طالبان کے ساتھ تعلقات پر رضا مند کرسکے تو یہ اس ٹیم کی بڑی کامیابی ہوگی ویسے بھی چین اور روس طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔‘‘ خیبر پختونخوا حکومت کے حوالے سے شیراز پراچہ کا کہنا تھا کہ صوبے پر دس سال حکومت کرنے والی پاکستان تحریک انصاف نہ تو امن کے قیام میں کامیاب ہوسکی اور نہ معاشی مسائل کا حل نکال سکی۔ پراچہ کے مطابق، ''بعض سیاسی لوگ صوبائی حکومت میں شامل لوگوں پر طالبان کو بھتہ دینے کا الزام بھی لگا رہے ہیں۔‘‘ اس تجزیہ کار کے مطابق نئے ارمی چیف اور مولانا فضل الرحمان بھی امن کے قیام میں موثر کردار اد کرسکتے ہیں۔
پاکستان ممنوعہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کیوں کر رہا ہے؟
صوبائی حکومت کا مؤقف
پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے تحریک طالبان کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات سے خود کو الگ رکھا ہے۔ حالیہ مذاکرات میں کسی بھی منتخب رکن اسمبلی نے حصہ نہیں لیا تاہم صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف صوبے میں امن کے قیام کیلئے مذاکرات میں پیش پیش رہے۔ انہوں نے کابل میں دو مرتبہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیے۔ ان مذاکرات میں بعض قبائلی عمائدین نے بھی انکا ساتھ دیا سیز فائر کا اعلان ضرور ہوا لیکن حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔
محمد علی سیف، جو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون برائے اطلاعات بھی ہیں کا کہنا ہے''ہم امن کی خاطر اپنی کوشیش جاری رکھیں گے ہم نے امن کی خاطر طالبان کے ساتھ ہر ممکن کوششیں کی ہے۔‘‘ طالبان کی طرف سے فائر بندی ختم کرنے کے اعلان کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ گذشتہ دو ماہ سے جنوبی اضلاع میں ہونیوالے حملوں سے سیز فائر کے معائدے کی خلاف ورزی کی گئی لیکن ہم امن کی خاطر خاموش رہے اگر حملے ہونگے تو جواب میں قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئیں گے۔
طالبان کے ساتھ سیئز فائر کے معائدے کے باوجود خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع مین دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات میں اضافہ ہوا جسکی وجہ سے ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع سمیت قبائلی اضلاع کے ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور خطے میں امن کے قیام کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتے رہے ۔معائدے کی رو سے تقریبا تین ماہ تک دہشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن ستمبر کے آغاز سے ان حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس دوران پولیس اہلکاروں اور تھانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ سوات میں طالبان کی نقل و حرکے کے بعد شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا جسکی وجہ سے سوات میں ہزاروں کی تعداد میں شہری سڑکوں پر نکل کر امن کے قیام کا مطالبہ کررہے تھے اور یہ سلسلہ دیگر اضلاع تک بھی پھیل گیا تھا۔