’پارلیمان نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر لی‘
31 مئی 2018اکتیس مئی کی شام وزارت پارلیمانی امور نے 14ویں قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نگران حکومت میں وزیر اعظم کا منصب سابق چیف جسٹس ناصرالملک سنبھالیں گے تاہم ابھی تک چاروں صوبوں کے نگران وزرائے اعلیٰ کے ناموں کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی ہے۔ ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے گیارہ اضلاع کی انتخابی حلقہ بندیوں کے خلاف فیصلے آنے کے بعد کئی حلقے انتخابات کے ممکنہ التوا کے اشارے دے رہے ہیں جبکہ بیشتر کا کہنا ہے کہ انتخابات وقت پر ہی ہوں گے۔
بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں ان فیصلوں کے نتیجے میں مسلم لیگ نون کو نقصان پہنچے گا جبکہ مسلم لیگ نون کے سینئر راہنما اس تاثر کی نفی کر رہے ہیں۔ اس امکان کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ انتخابات کو صرف چند ہفتوں کے لیے ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں یہ خدشہ اس قدر شدت پکڑ رہا ہے کہ آج بروز جمعرات وزیرِ اعظم شاہد خان عباسی کو بھی قومی اسمبلی میں انتخابات کے بروقت انعقاد پر زور دینا پڑا۔ واضح رہے ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب بلوچستان اسمبلی ایک قرارداد کے ذریعے انتخابات کے التواء کا مطالبہ کر چکی ہے۔
انتخابی نشانات کا اجراء اور بھٹو وراثت کا جھگڑا
پاکستانی نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصرالملک ہوں گے
پاکستان کے انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے مطابق حلقہ بندیوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ہونے والی ایک سو بیس کے قریب درخواستوں میں سے دس حلقہ بندیوں کے خلاف فیصلہ دیا جا چکا ہے۔ بارہ حلقوں کی کئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سماعت جمعرات کے دن ہوئی، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروقی نے بلوچستان کے ضلع خاران کے ایک حلقے کی حلقہ بندی کو کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے دس اضلاع کی درخواستیں مسترد کر دیں اور ایبٹ آباد کے ایک حلقے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ آٹھ اضلاع کی نو درخواستوں کی سماعت کل بروز جمعہ ہوگی۔
اس ضمن میں ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’اگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوبارہ سے حلقہ بندیاں کرنے کا کہا تو پھر انتخابات کا بروقت انعقاد مشکل ہوجائے گا۔ نئے سرے سے حلقہ بندیوں کے لیے کم از کم تین ماہ کا وقت درکار ہو گا۔ ایک مہینہ تیاریوں اور اعلان کے لیے، ایک مہینہ اعتراضات کی درخواستیں وصول کرنے کے لیے اور ایک ماہ ان درخواستوں کو نمٹانے کے لیے۔ تاہم اگر عدالت نے صرف نظرِ ثانی کا ہی کہا تو پھر انتخابات وقت پر ہوں گے۔‘‘
عام تاثر یہ ہے کہ ان دس حلقوں میں سے جہلم، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، قصور، شیخوپورہ اور بہاولپور چونکہ پنجاب میں ہیں اور مسلم لیگ کے سیاسی گڑھ ہیں، لہذا اسے نقصان ہو سکتا ہے۔ تاہم مسلم لیگ نون کے راہنما راجہ ظفر الحق نے اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمیں ان حلقہ بندیوں پر اعتراضات تھے، جس کے خلاف ہم نے متعلقہ اداروں سے شکایات کی تھیں اور ان کا فیصلہ ہمارے حق میں ہو گیا تھا۔ ہمارے حلقوں سے یونین کونسلوں کو مخالفین کے حلقوں میں ڈال دیا گیا تھا لیکن ای سی پی نے بعد میں ہماری شکایات کا ازالہ کر دیا تھا۔ اب ہمیں ان حلقہ بندیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور ہم صرف انتخابات کا بروقت انعقاد چاہتے ہیں۔‘‘
ساہیوال سے مسلم لیگ نون کے دو اراکینِ قومی اسمبلی نے ان حلقہ بندیوں کو چیلنج کیا تھا۔ ان اراکینِ کے وکیل غفارالحق کا بھی یہی خیال ہے کہ حلقہ بندیاں کسی بھی سیاسی جماعت کے حق یا مخالفت میں نہیں ہوئیں، ’’میں نے نون لیگ کے دو اراکین اسمبلی کی طرف سے حلقہ بندیوں پر اعتراضات جمع کرائے تھے اور زیادہ تر اعتراضات کو تسلیم کر لیا گیا اور تصحیح کر دی گئی ہے۔ میں نے پنجاب کے تقرییا چار ضلعوں سے مختلف امیدواروں کی طرف سے اعتراضات جمع کرائے تھے۔ میرے خیال میں یہ غلطیاں دانستہ طور پر نہیں کیں گئی تھیں اور جب ہم نے ان اعتراضات کیے، تو زیادہ تر غلطیوں کو تسلیم کر کے درست کر دیا گیا۔‘‘
نیشنل پارٹی پنجاب کے رہنما ایوب ملک بھی غفارالحق کی اس بات سے متفق ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے پر ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے پی پی دو سو انیس کے حوالے سے اعتراضات جمع کرائے تھے اور ہمارے اعتراضات کو تسلیم کر لیا گیا۔ حالانکہ بلوچستان میں کئی فیصلے ہمارے خلاف بھی ہوئے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مجموعی طور پر ای سی پی نے کام صحیح کیا ہے اور یہ تاثر غلط ہے کہ یہ حلقہ بندیاں کسی سیاسی جماعت کو نقصان پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں۔ میرے خیال میں تمام لوگوں کی کوشش ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں۔‘‘
دوسری طرف لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں ان حلقہ بندیوں سے ن لیگ کو ممکنہ طور پر نقصان ہو سکتا ہے، ’’حلقہ بندیاں مردم شماری کی بنیاد پر ہو رہی ہیں، جو ن لیگ نے کرائی تھی۔ اگر ن لیگ اعتراض اٹھاتی ہے تو انگلی خود ان پر اٹھے گی لیکن جن علاقوں میں نشستیں کم ہوئی ہیں وہ نون لیگ کے سیاسی گڑھ ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں حلقہ بندیوں کے مسئلے ہیں، جیسا کہ شیخوپورہ، جھنگ، فیصل آباد، جہلم اور بہاولپور، یہ سب ن لیگ کے گڑھ ہیں۔ تاہم پارٹی کو یہ خدشہ ہے کہ اگر اس نے اس مسئلے کو زیادہ اٹھایا تو انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے وہ زیادہ شور نہیں مچا رہے۔‘‘
ڈوئچے ویلے نے جب اس مسئلے پر الیکشن کمیشن کے ترجمان ندیم قاسم سے رابطہ کیا انہوں نے بتایا، ’’ہمیں نہ ہی کل (بدھ) کے فیصلے کی تحریری کاپی ملی ہے اور نہ ہی پرسوں (منگل) کے فیصلے کی کاپی ملی ہے۔ میر ے علم میں نہیں کہ ہائی کورٹ میں کتنی درخواستیں حلقہ بندیوں کے خلاف دائر کی گئی ہیں اور آج (جمعرات) کتنی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ تاہم ہمارے پاس بارہ سو سے زائد درخواستیں آئی تھیں، جو ہم نے نمٹا دی ہیں۔ اب ہماری پوری توجہ انتخابات کے بروقت انعقاد پر مرکوز ہے۔‘‘
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کے خیال میں انتخابات میں معمولی تاخیر ہو سکتی ہے، ’’میری اطلاعات کے مطابق ہائی کورٹس نے ای سی پی کو کئی درخواستوں کے متعلق حکم دیا ہے کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے اعتراضات دور کیے جائیں۔ اگر ای سی پی ریونیو افسران کی خدمات حاصل کرتا ہے تو ان اعتراضات کو ایک مہینے میں نمٹایا جا سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ انتخابات شائد ایک مہینے کے لیے ملتوی کرنے پڑ جائیں لیکن اس سے زیادہ تاخیر کا امکان نہیں۔