پاناما: نو ماہ سے قید بارہ پاکستانی حکومت سے رابطے کے منتظر
5 مئی 2016پاکستانی صوبہ خیبر پختونخواہ کی وادی سوات کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے بارہ افراد ایک سال قبل برازیل منتقل ہوئے تھے۔ برازیل میں تین ماہ کا عرصہ گزارنے کے بعد بہتر مستقبل کے یہ متلاشی افراد سمندری راستوں سے ہوتے ہوئے وسطی امریکا کی ریاست پاناما پہنچے تھے، جہاں انہیں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ سوات کی تحصیل کبل کے علاقے کوزہ بانڈئی کے رہائشی اختر علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان بارہ افراد میں گیارہ کا تعلق وادی سوات سے ہے جبکہ ایک شخص کا تعلق ضلع ملاکنڈ سے ہے، ’’پانامہ میں قید بارہ افراد قانونی طریقے سے برازیل گئے تھے، وہاں پر تین ماہ کا عرصہ گزارنے کے بعد جب ان کے حالات سازگار نہیں ہوئے تو دیگر مہاجرین کے ساتھ یہ بارہ افراد سمندری راستوں سے ہوتے ہوئے غیر قانونی طریقے سے امریکا جانے کی کوشش میں تھے۔‘‘
افغانستان، بھارتی اور افریقی تارکین کے ساتھ یہ بارہ پاکستانی جب پاناما شہر پہنچے تو وہاں کی پولیس اور سکیورٹی اداروں نے انہیں گرفتار کر لیا۔
پانامہ کے قانون کے مطابق گرفتار مہاجرین کو تیس دن کے اندر اندر یا تو آگے بھیج دیا جاتا ہے یا پھر انہیں واپس ان کے ملک ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے لیکن یہ بارہ پاکستانی گزشتہ نو ماہ سے حراست میں ہیں۔ ان بارہ افراد میں سے دو کی عمریں انیس سال کے لگ بھگ ہے جبکہ دیگر افراد بیس سے تیس سال کے درمیان ہے۔
ان قیدیوں کے حوالے سے جب پاکستانی محکمہ خارجہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ اس حوالے سے ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔ پاناما میں پاکستانی سفارتخانے کی عدم موجودگی کے باعث وہاں پر پاکستانیوں کے معاملات پر میکسیکو میں پاکستانی ایمبیسی نظر رکھتی ہے۔ میکسیکو میں پاکستانی ایمبیسی کے میڈیا سیل نے بھی ان بارہ افراد کی حراست سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
پاناما سٹی میں قید ان بارہ افراد کے رشتہ داروں نے جمعرات کے روز ایک چھوٹا سا احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس میں حکومت سے مدد کی اپیل کی گئی ہے۔
پاناما سٹی میں قید ان بارہ پاکستانیوں میں عرفان، حبیب خان، عبدالحمید، محمد سعید، فراموش، گوہر رحمان، امجد اور داؤد بھی شامل ہیں۔