پاناما کیس کا فیصلہ جمعے کے روز، سکیورٹی ہائی الرٹ
27 جولائی 2017واضح رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جس دس جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی تفتیشی رپورٹ جمع کرائی تھی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سپریم کورٹ کے بینچ نے اس مقدمے کی پانچ سماعتیں کیں، جن میں تمام فریقین نے اپنے دلائل دیے۔ پاناما کیس کا فیصلہ 21 جولائی کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔ اب سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بنچ کل ساڑھے گیارہ بجے فیصلہ سنائے گا۔
اسلام آباد کی صحافی صبا بجیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں کل دن ساڑھے گیارہ بجے پاناما کیس کا فیصلہ سنائے گا۔‘‘ پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے صحافی اعزاز سید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ اسلام آباد میں سکیورٹی کی غیر معمولی صورتحال ہے۔ اگر مسلم لیگ نون کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو اس سیاسی جماعت کے کارکنوں کی طرف سے احتجاج بھی متوقع ہے۔‘‘
اعزاز نے کہا، ’’حکومتی حلقوں میں بھی کافی پریشانی ہے اور آج پاکستان کے وزیر داخلہ نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں اعتراف کیا ہے کہ حکومت کو سپریم کورٹ کے متوقع فیصلے کے حوالے سے کافی تحفظات ہیں۔‘‘
اعزاز سید کہتے ہیں کہ اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف آتا ہے اور اگر وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ ملکی کابینہ ٹوٹ جائے گی لیکن چونکہ پارلیمنٹ میں اکثریت مسلم لیگ نون کی ہے اس لیے حکومت مسلم لیگ نون کی رہے گی اور ممکنہ طور پر ایک نیا وزیر اعظم نامزد کرے گی جسے پارلیمنٹ کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنا پڑے گا اور نئی کابینہ بنے گی۔ اعزاز کی رائے میں ایسا بھی ممکن ہے کہ مسلم لیگ نون نئے انتخابات کا اعلان کرے لیکن اس کا امکان کم ہے اور یوں لگتا ہے کہ وزیر اعظم کی نا اہلی کی صورت میں بھی حکومت پانچ سال کی مدت پوری کرے گی۔
دوسری جانب چند تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ بھی عین ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں وزیر اعظم کو نا اہل نہ قرار دیا جائے۔
اسلام آباد میں ڈی ڈبلیو کے نمائندہ عبدالستار کا کہنا ہے، ’’اسلام آباد افواہوں کی زد میں ہے لیکن فیصلے کے حوالے سے پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ کچھ تجزیہ کاروں کی رائے میں وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ سیاسی حلقوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنایا جاتا ہے تومستقبل قریب میں عمران خان اور جہانگیر ترین جن کے کیسز بھی عدالت میں چل رہے ہیں ان کے خلاف بھی ایسے فیصلے سنائے جاسکتے ہیں اور ایسا ہونے کی صورت میں ملک میں سیاسی خلاء پیدا ہو سکتا ہے۔