پانامہ پر پی پی پی کا بدلا ہوا موقف
18 جولائی 2017پی پی پی کے رہنما آج پانامہ اور جے آئی ٹی سے متعلق مقدمے کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ بھی آئے اور میاں صاحب کو مشورے بھی دے ڈالے۔ پارٹی کے ایک رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی کی جلد دس کھولی تو میاں صاحب کو مذید شرمندگی ہوگی۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں پی پی پی کا رویہ بدلتا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ ماضی میں پی پی پی اور ن لیگ میں یہ مفاہمت تھی کہ جب فوج کی طرف سے دباو ہوگا تو دونوں جماعتیں متحد ہوجائیں گی لیکن اب پی پی پی کسی طرح بھی دوستانہ حزبِ اختلاف کا کردار ادا نہیں کر رہی۔ تو کیا پی پی پی جی ایچ کیو کے حق میں ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ توصیف احمد نے کہا، ’’پی پی پی نے شروع میں میثاقِ جمہوریت کی روح کے مطابق سویلین حکومت کا ساتھ دیا اور دھرنے کو ناکام بنایا لیکن پھر اسٹیبلشمنٹ نے چوہدری نثار کے ذریعے پی پی پی اور نون لیگ میں تعلقات خراب کرائے۔ نثار نے ڈاکڑ عاصم کو گرفتار کرایا اور ابھی کچھ دنوں پہلے ڈاکڑ عاصم کی بہن کے گھر بھی چھاپا مارا گیا تو نیب کے اقدامات نے پی پی پی کو ن لیگ سے بدظن کر دیا اور اب پی پی پی اسی لئے ہی نواز شریف کی مخالف دکھائی دیتی ہے۔‘‘
پاکستان: ’حکومت اس وقت عملی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے‘
’تفتیشی عمل متعصبانہ اور جانبدارانہ ہے‘
کیلیبری فونٹ سوشل میڈیا پر موضوع بحث
ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی ایسا فوج کو خوش کرنے کے لئے کر رہی ہے۔ ’’زرداری کی پارٹی فوج کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ انہیں یہ امید ہے کہ اگلے انتخابات میں انہیں جی ایچ کیو سے کچھ ملے گا لیکن میرے خیال میں فوج کسی سیاسی جماعت کو کچھ نہیں دے گی اور وہ سب کے ہی خلاف اقدامات کرے گی۔‘‘
لیکن سابق صدر زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ایسے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمارا ایک اصولی موقف ہے کہ نواز شریف کو استعفیٰ دینا چاہیے۔ دنیا بھر میں جب ایسے الزامات کسی وزیر یا سرکاری افسر پر لگتے ہیں تو وہ استعفیٰ دے دیتا ہے۔ یہاں تو وزیرِ اعظم کا مسئلہ ہے۔ پانامہ کیس سے سیاست دانوں کی بدنامی ہوئی ہے اور اگروزیرِ اعظم اس مسئلے کو مزید طول دیتے ہیں تو اس سے پارلیمنٹ کی توقیر اور سیاست دانوں کی ساکھ متاثر ہوگی۔‘‘
پی پی پی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیرِ مملکت آیت اللہ درانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہماری پارٹی میں اندورنی طور پر بہت دباو ہے کہ ہم نواز مخالف جماعتوں کے ساتھ چلیں۔ گزشتہ چار برسوں میں ہم نے نواز کا ساتھ دیا اور میثاقِ جمہوریت کی پاسداری کی، جس کے ذریعے ہم نے جمہوریت کو بچایا۔ اس کے لئے ہمیں سیاسی قربانیاں بھی دینی پڑیں اور پنجاب میں ہمیں سیاسی طور پر بہت نقصان ہوا، لیکن اب جب کہ پانامہ کیس میں یہ بات واضح ہے کہ نواز شریف نے چوری کی ہے تو ہم اس کا ساتھ کیوں دیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اگر نواز شریف نے پارلیمنٹ کو برخاست کیا تو ہم دوسری جماعتوں سے مشورہ کر کے کوئی لائحہ عمل تیار کریں گے۔ میرے خیال میں نواز کو کسی دوسرے شخص کو وزیرِ اعظم بنا دینا چاہیے تاکہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر لے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ نواز شریف اپنے علاوہ کسی اور پر اعتبار ہی نہیں کرتے۔‘‘
انہوں نے اس تاثر کو زائل کیا کہ پی پی پی اور جی ایچ کیو میں کوئی خاموش مفاہمت ہورہی ہے۔