پاکستانی شیعہ کمیونٹی کا ملک گیر احتجاج اور دھرنے
بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں منگل کو شیعہ زائرین کی ایک بسں پر حملے اور ہلاکتوں کے خلاف کوئٹہ، کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج جاری ہے۔
کراچی میں ایک شیعہ مسلمان لڑکی منگل کے روز ہونے والے واقعے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں ہونے والی اس فرقہ ورانہ کارروائی میں بڑی تعداد میں شیعہ زائرین سمیت کم از کم اٹھائیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ان مظاہروں میں خواتین، مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
شیعہ کمیونٹی کی طرف سے لاہور میں بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ شرکاء کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔
کوئٹہ میں علمدار روڈ کے قریب ٹائر جلاتے ہوئے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
ہزارہ شیعہ کیمونٹی کے سینکڑوں افراد نے مستونگ مں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ میں علمدار روڈ پر دھرنا دے رکھا ہے۔ اس احتجاج میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شریک ہے۔
ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو پہلے بھی متعدد مرتبہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسی طرح کے احتجاج کے نتیجے میں صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔
مجلس وحد ت المسلمین کے رہنما علامہ ہاشم موسوی کے بقول، ’’ہم اپنا دھرنا جاری رکھیں گے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کا نمائندہ آئے اور اپنے ساتھ ٹارگٹڈ آپریشن پر عمل درآمد کے حوالے سے ضمانت پیش کرے، تب ہی ہم دھرنا ختم کر کے شہداء کی تدفین کریں گے۔‘‘
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بدھ کو علمدار روڈ کا دورہ کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے دھرنے میں شامل اراکین سے دھرنا ختم کرنے کو کہا تاہم مظاہرین نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔
شیعہ کمیونٹی کے خلاف حملوں کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ کوئٹہ کی مختلف امام بارگاہوں کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔