پاکستانی طالبان کی ایک اور بے رحمانہ کارروائی
20 جولائی 2011خبر رساں ادارے انٹر پریس سروس (IPS) کے ایک جائزے کے مطابق پیر کو جاری ہونے والی یہ ویڈیو اُن کارروائیوں کا ایک اور ثبوت ہے، جو طالبان کی جانب سے پاک افغان سرحدی علاقے میں دہشت پھیلانے کے لیے عمل میں لائی جا رہی ہیں۔
اس ویڈیو میں طالبان کے ایک نامعلوم رکن کو پشتو زبان میں یہ وضاحت کرتے دکھایا گیا ہے کہ ان پولیس اہلکاروں کو موت کی یہ سزا اسلام کا راستہ ترک کرنے اور ملحقہ ضلع سوات میں سکیورٹی آپریشنز کے دوران چھ پاکستانی بچوں کو ہلاک کرنے کی پاداش میں دی جا رہی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان نے پولیس کے ان سپاہیوں کو یکم جون کو شالتالو نامی گاؤں میں واقع ایک سکیورٹی پوسٹ پر اپنے حملے کے دوران اغوا کیا تھا۔ دیر کے ایک رہائشی عمران اللہ نے IPS کو بتایا، ’پہلے تو ہم نے سوچا کہ ہم کسی ایکشن فلم کا کوئی منظر دیکھ رہے ہیں، ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم سزائے موت پر عملدرآمد کا کوئی حقیقی منظر دیکھ رہے ہیں‘۔
عمران اللہ نے مزید بتایا: ’’طالبان اپنی بے رحمی کے حوالے سے مشہور ہیں چنانچہ جلد ہی ہمیں یقین آ گیا کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، وہ حقیقت میں ہو چکا ہے۔ ہمیں ابھی بھی یاد ہے کہ کیسے طالبان نے ایک مقبول خاتون ڈانسر شبانہ کو سوات میں قتل کر دیا تھا اور انتباہ کے طور پر اُس کی لاش بجلی کے ایک کھمبے کے ساتھ لٹکا دی تھی۔‘‘ اس قتل کے بعد تقریباً 400 ڈانسر خواتین یا تو سوات چھوڑ گئیں یا پھر اپنے اپنے گھروں تک محدود ہوکر رہ گئیں۔
تازہ ویڈیو میں مسلح طالبان کو ایک قطار میں کھڑے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کرتے اور گولی لگنے سے گر جانے کے بعد نزدیک جا کر یہ تسلی کرنے کے لیے کہ وہ درحقیقت ہلاک ہو چکے ہیں، اُن میں سے کئی ایک کو قریب سے بھی گولی مارتے دکھایا گیا ہے۔
سوات امن کمیٹی کے ایک رکن ضیاء الدین یوسف زئی نے IPS کو بتایا کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور اس طرح کی ویڈیوز کے باعث لوگ اس قدر خوف اور دہشت میں مبتلا ہیں کہ وہ طالبان کے خلاف بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں: ’’صرف ضلع سوات میں پولیس اہلکاروں اور طالبان کے مخالف عام لوگوں سمیت کوئی 300 افراد کو ذبح کر دیا گیا۔ اکثر مرنے والوں کی لاشیں گرین چوک میں لٹکا دی جاتی تھیں، دیگر لوگوں کو یہ پیغام دینے کے لیے کہ طالبان کی مخالفت کرنے والوں کا یہ حشر کیا جاتا ہے۔‘‘ طالبان بعد ازاں بڑے فخر کے ساتھ ان کارروائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ساتھ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بھی بار بار طالبان کی ہی نہیں بلکہ پاکستانی فوج کی جانب سے بھی کی گئی اس طرح کی کارروائیوں کی مذمت کی جاتی رہی ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک